ہر سطح پر استحصال، سرمایہ اور قابلیت کی منتقلی
محمد ناصر شریف
وطن عزیز میں بالآخر 8فروری 2024کو تاریخ کے سب سے زیادہ پرامن انتخابات بخیر و خوبی انجام کو پہنچ گئے، انتخابات کے پرامن انعقاد کیلئے پاک افواج، رینجرز، پولیس سمیت تمام سکیورٹی اداروں نے جو کردار ادا کیا وہ قابل تحسین ہے۔ پولنگ کے دن کے حوالے سے تو کافی زیادہ خدشات تھے کہ یہ دن پاکستان میں بہت خون ریز ہوگا لیکن ایسا نہیں ہوا اور پاکستان کے دشمنوں کو اس دن منہ کی کھانی پڑی۔ انتخابات کے بعد کی صورتحال میں یقیناً ملک ایک مخلوط حکومت کی جانب جارہا ہے اور نئی حکومت جو بھی آئے گی اس کیلئے حکومت کرنا آسان ہوگا نہ فیصلے کرنا۔ انہیں بڑے چینلجز درپیش ہیں، جن میں سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی، مہنگائی، بے روزگاری، بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی ہے۔ افغانستان، ایران سمیت ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں بہتری بھی ضروری ہے۔ ایک کروڑ20لاکھ افراد بیروزگار، مشکل اقتصادی صورتحال، بگڑتی ہوئی لیبر مارکیٹ، ترسیلات زر کی تنزلی کی وجہ سے پاکستان میں غربت کی شرح بڑھ کر 41فیصد پر پہنچ گئی۔ عالمی بینک نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ امن عامہ کی بگڑتی صورتحال، سیاسی اور معاشی بے یقینی اور عدم استحکام کے باعث گزشتہ 20ماہ کے دوران پاکستانی تاجر اور امیر افراد نہ صرف دبئی کی ریئل اسٹیٹ میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں بلکہ وہاں درآمدی و برآمدی ٹریڈنگ ہائوسز بھی قائم کر رہے ہیں۔ مقامی ذرائع سے حاصل ہونیوالی معلومات کے مطابق دبئی میں مقیم کراچی کے ایک سرمایہ کار انور خواجہ کا کہنا ہے کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ پاکستانی افراد دبئی کی ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی شہری تجارتی اور کاروباری ادارے قائم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بہت سے بڑے بزنس ٹائیکونز نے اپنا کاروبار جزوی یا مکمل طور پر دبئی منتقل کر دیا ہے جس سے ملک آمدنی اور ملازمتوں سے محروم ہورہا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے کیلئے لوگوں کے پاس وجوہات ہیں، جن میں امن عامہ کی بگڑتی صورتحال، سیاسی اور معاشی بے یقینی اور عدم استحکام شامل ہیں اور ان وجوہات سے تاجر برادری خوفزدہ ہے، کیونکہ یہ کاروباری افراد کراچی میں باقاعدگی کے ساتھ کسی نہ کسی گروپ کو بھتہ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ کاروباری خاندان مستقل طور پر دبئی میں مقیم ہیں، انہوں نے یہاں گھر خریدے اور بیرونی ممالک کے ساتھ تجارت قائم کی۔ وہ دوسرے ممالک کو برآمدات یا وہاں سے درآمدات کیلئے اور پاکستانی سامان کی تجارت کیلئے ایک بیس کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ دبئی سے تجارت آسان ہے کیونکہ برآمدات یا درآمدات کیلئے اکائونٹ کھولنے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ لوگ دبئی میں کماتے اور سرمایہ کاری کرتے ہیں اور ریئل اسٹیٹ کو خصوصی طور پر پیسہ کمانے کیلئے جنت شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ 2022کے وسط میں جاری ہونے والی یورپی یونین کی ٹیکس آبزرویٹری کی رپورٹ کے مطابق پاکستانیوں نے دبئی ریئل اسٹیٹ میں 10.6بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور اس طرح پاکستانی دبئی میں تیسرے بڑے سرمایہ کاروں میں شامل ہوچکے ہیں۔ بھارتی سرمایہ کار دبئی کی ریئل اسٹیٹ سرمایہ کاری میں 29.8 ارب ڈالر کے ساتھ سرفہرست ہیں، اس کے بعد برطانوی سرمایہ کار 14.7ارب ڈالر کے ساتھ ہیں۔ غیر ملکی دولت میں کم از کم 146ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ دبئی پراپرٹی مارکیٹ اب غیر ملکی سرمایہ کاروں کیلئے دنیا کی سب سے بڑی آف شور مارکیٹ ہے اور اس کا حجم اب لندن کی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ سے دوگنا بڑا ہے۔ دنیا میں قرضوں میں جکڑی معیشتوں کیلئے امریکہ میں سرمایہ کاری اور مالیات کے امور کے حوالے سے مشاورتی خدمات دینے والی ایک بڑی کمپنی لافر ٹینگر انویسٹمنٹس نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتے قرضوں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام بڑی معیشتیں اپنی مالی موت کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ کمپنی کے سربراہ آرتھر لافر نے ایک انٹرویو میں پیشگوئی کی ہے کہ آنے والی ایک دہائی مشکل قرضہ جات کی دہائی ہوگی، قرض لینے کے بحران نے ترقی یافتہ اور ابھرتے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس بحران کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران عالمی قرضہ جات میں 100ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ ستمبر میں یہ حد 307.4ٹریلین ڈالر تک جا پہنچی ہے، یہ صورتحال گزشتہ 40برسوں میں عالمی شرح سود میں سب سے زیادہ اضافے کے موقع پر سامنے آئی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جاپان جیسے امیر ممالک میں قرضوں کی شرح بے قابو ہوچکی ہے اور عالمی قرضہ جات میں انہی ممالک کا حصہ 80فیصد سے زائد ہے۔ ابھرتی مارکیٹس میں دیکھیں تو چین، بھارت اور برازیل نے سب سے زیادہ قرضے لئے ہیں۔ آرتھر لافر کا کہنا تھا کہ امکان اس بات کا ہے کہ اپنے قرضوں کے مسائل حل نہ کرنے والے کچھ بڑے ممالک سست نمو کا شکار ہوکر اپنی مالیاتی موت مر جائیں گے جبکہ کچھ ابھرتی معیشتیں بھی دیوالیہ ہوسکتی ہیں۔ پاکستان کی نومنتخب حکومت کے ایک اور آئی ایم ایف پلان کی جانب جانے کی پیش گوئی پہلے ہی کی جاچکی ہے۔ پاکستان ویسے بھی قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جارہا ہے اور اگر نئی حکومت نے حکومتی اخراجات کو کم نہیں کیا تو ملکی معیشت میں اپنی موت آپ مرنے کی جانب چلی جائیگی۔ اس لئے نئے حکمرانوں کو سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر ملکی مفادات میں سخت اور قابل عمل فیصلے کرنے ہوں گے۔ ایک اور خبر تعلیمی معیار کے انحطاط سے متعلق جامعہ کراچی سے آئی ہے کہ جامعہ کراچی کے تحت 20شعبوں کیلئے ہونے والے بی ایس کے داخلہ ٹیسٹ 2024کے نتائج نے سرکاری تعلیمی بورڈز کے طلبہ کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ہے۔ اندرون سندھ کے بورڈز کے اے ون اور اے گریڈ کے حامل طلبہ کی کارکردگی داخلہ ٹیسٹ میں انتہائی مایوس کن رہی ہے جس نے ان کے گریڈنگ پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ سرکاری بورڈز میں سب سے تباہ کن کارکردگی حیدرآباد تعلیمی بورڈ کی رہی جہاں 5فیصد طلبہ بھی ٹیسٹ میں کامیابی نہیں حاصل کر سکے جب کہ پرائیویٹ بورڈ میں خراب کارکردگی ضیا الدین بورڈ کی رہی جہاں 4فیصد طلبہ بھی ٹیسٹ پاس نہیں کر سکے۔ البتہ پرائیوٹ بورڈز آغا خان اور کیمبرج کے طلبہ کی کارکردگی ٹیسٹ میں خاصی بہتر رہی۔ ملک کی سب سے بڑی جامعہ کراچی کیلئے ہونے والے داخلہ ٹیسٹ میں 8099امیدواروں نے شرکت کی جس میں سے صرف 1725(21.30)فیصد امیدوار ہی کامیاب ہوسکے اور 6374(79.70)فیصد امیدوار ناکام ہوگئے۔ آغا خان امتحانی بورڈ کے 130امیدواروں نے ٹیسٹ دیا، 75(57.69) فیصد امیدوار کامیاب ہوئے۔ کیمبرج سسٹم کے 155امیدواروں نے ٹیسٹ دیا، 87(56.13) فیصد طلبہ کامیاب ہوئے، فیڈرل بورڈ کے 306امیدواروں نے ٹیسٹ دیا، 81(26.47) فیصد کامیاب ہوئے جب کہ کراچی کے انٹرمیڈیٹ بورڈ کے 5721 امیدواروں نے ٹیسٹ دیا، 1367(23.89) فیصد امیدوار کامیاب ہوئے جبکہ4375امیدوار ناکام ہوئے۔ حیدرآباد بورڈ کے309 امیدواروں نے ٹیسٹ دیا، صرف 15(4.85) فیصد امیدوار ہی کامیاب ہوسکے، میرپور خاص تعلیمی بورڈ کے 187امیدواروں نے ٹیسٹ دیا، 25(13.37)فیصد امیدوار کامیاب ہوسکے، سکھر تعلیمی بورڈ کے 264امیدوار ٹیسٹ میں شریک ہوئے، جس میں 14 (5.30)فیصد امیدوار کامیاب ہوئے۔ لاڑکانہ تعلیمی بورڈ کے 321امیدوار ٹیسٹ میں شریک ہوئے، 16 (4.98)فیصد پاس ہوئے۔ ضیا الدین بورڈ کے 283امیدوار امتحانات میں شریک ہوئے، 10(3.53)فیصد امیدوار ہی کامیاب ہوسکے۔ بلوچستان کے کوئٹہ بورڈ کے 112امیدوار شریک ہوئے، 8 (7.14)فیصد پاس ہوئے۔ یاد رہے جامعہ کراچی کے تحت 20شعبوں میں ہونیوالے داخلہ ٹیسٹ میں پاسنگ مارکس 50فیصد رکھے گئے تھے۔
اسی طرح سندھ کے کسی بھی تعلیمی بورڈ میں گزشتہ کئی برس سے مستقل کنٹرولر، چیئرمین، سیکرٹری اور آڈٹ افسر ہی نہیں ہیں۔ ایڈہاک ازم اور سفارشی کلچر نے بورڈز کو تباہ کر دیا ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار تعلیم پر ہوتا ہے اور ہمارے بورڈ میں موجود اہلکار اپنے ذاتی فائدے کیلئے ایک ایسا گریڈنگ سسٹم پروان چڑھا رہے ہیں جس میں اہل طلبہ کا استحصال کیا جارہا ہے جس کی واضح مثال انٹر بورڈ کراچی کے موجودہ نتائج بھی ہیں، جس میں اہل طلبہ کو جان بوجھ کر فیل کیا گیا اور اس کی جگہ پیسے کی چمک کے ذریعے نااہل طلبہ کو کامیاب کیا گیا۔ اگر ہم اپنے تعلیمی بورڈز میں اس کلچر کو ختم نہیں کریں گے تو ہمارا مستقبل روشن نہیں ہوگا۔ بہت اہل اور قابل لوگ اس ملک کو چھوڑ کر جانے پر مجبور ہورہے ہیں۔ وطن عزیز کو رہنے کے قابل بنانا اور عوام، طلبہ اور ہر مکتبہ فکر کے اہل افراد کے استحصال کو روکنا کس کی ذمے داری ہے؟ یقیناً یہ ہم سب کی ذمے داری ہے، ہمیں آگے بڑھ کر اپنے ملک سے اقربا پروری، استحصال جھوٹ، ناانصافی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔