Column

13فروری ریڈیو کا عالمی دن

ضیاء الحق سرحدی
دنیا بھر میں ہر سال اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے زیر اہتمام 13فروری کو ریڈیو کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد نہ صرف ریڈیو کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرنا ہے بلکہ لوگوں میں اس کے استعمال کا شعور اجاگر کرتے ہوئے یہ بھی واضح کیا جاتا ہے کہ ریڈیو کس طرح مختلف ممالک کے درمیان ثقافتی کردار ادا کر رہا ہے۔ ریڈیو کا عالمی دن منانے کی ابتداء سن 2012ء سے شروع ہوئی تھی حالانکہ ریڈیو کی ایجاد بہت پرانی ہے۔ لفظ ریڈیو، ریڈیائی لہروں سے منسوب ہے۔ ریڈیو ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے ریڈیائی لہروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ریڈیو کے عالمی دن کے موقع پر بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ریڈیو اٹلی کے سائنس دان اور الیکٹریکل انجینئر گوگلیلمو مارکونی(Guglielmo Marconi)کی ایجاد ہے۔ آج کے دور میں تقریبا ًہر کسی کے پاس موبائل فون ہے، موبائل فون رکھنے والے بھی یہ نہیں جانتے کہ ان کے پاس یہ جدید ٹیکنالوجی مارکونی کی مرہون منت ہے۔ مارکونی ایک ایسا سائنس دان اور انجینئر تھا۔25اپریل 1874میں اٹلی کے مشہور شہر بولونیا میں پیدا ہونے والے گگلیلمومارکونی کو کم عمری سے ہی بجلی کے تجربات کرنے کا شوق تھا۔ جب وہ بیس برس کا ہوا تو اس نے سائنس دان جیمزکلارک کی ایک تحریر پڑھی جس میں جیمز کلارک نے دریافت کردہ وائرلیس لہروں کے بارے میں بتایا تھا۔ اس تحریر کا مارکونی پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے ان لہروں پر تجربات کرنا شروع کر دیئے دراصل وہ ریڈیائی لہروں یعنی تار کے بغیر ٹیلی گراف پیغام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے تصور کو حقیقت کا روپ دینا چاہتا تھا۔ جب لوگوں کو اس کے تصور کا علم ہوا تو انہوں نے مارکونی کا تمسخر اڑانا شروع کر دیا لیکن مارکونی مسلسل اپنے تجربات میں مصروف رہا اور بالآخر وہ ہوا کی لہروں پر اپنا پیغام دو میل کے فاصلہ تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کامیابی کے بعد جب مارکونی کو اپنی نئی ایجاد پر اٹلی میں کوئی خاص پذیرائی اور مدد نہ ملی تو وہ لندن چلا گیا اور وہاں اپنے تجربات کو جاری رکھا جو مزید کامیاب ہوتے گئے اور مارکونی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ شہرت ملنے پر اٹلی کی حکومت نے اسے واپس بلوا لیا، مارکونی اپنے وطن واپس آگیا اور حکومت کے تعاون سے وہاں ریڈیائی لہروں کا ایک سٹیشن قائم کیا۔ پہلی جنگ عظیم میں اس سٹیشن کے ذریعے بحری جہازوں کا پیغامات بھیجے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔1897ء میں مارکونی نے سمندر پار پہلا وائرلیس پیغام بھیجا۔ مارکونی نے مزید تجربات کرکے ریڈیائی لہروں کے ذریعے پیغامات بھیجنے کا فاصلہ بڑھانا شروع کر دیا۔ سن 1901ء میں مارکونی نے پہلا ٹرانزلانٹک ریڈیو سگنل نشر کیا اور وائرلیس پیغام بحر اوقیانوس سے پار انگلستان سے کینیڈا بھیجنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے ریڈیائی سگنلز نے سمندری سفر کی تنہائی کو ختم کر دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مارکونی کے وائرلیس پیغام کی بدولت ٹائی ٹینک کے زندہ بچ جانے والے مسافروں کو ریسکیو کرنے میں مدد ملی تھی۔ اس نئی ایجاد پر مارکونی کو 1915ء میں نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا۔ مارکونی کی ایجاد کی باقاعدہ شکل 1922ء میں سامنے آئی جب انگلینڈ میں ریڈیو براڈ کاسٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ مارکونی کی تحقیق اور تجربات سے ثابت ہوا کہ وائر لیس کمیونیکیشن بھی ممکن ہے۔ یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جب20 جولائی 1937ء کو اٹلی کے شہر روم میں نوبل انعام یافتہ سائنس دان گوگلیلمو مارکونی کی وفات ہوئی تو اس کے انتقال کی خبر اسی کے ایجاد کردہ ریڈیو پر دنیا بھر میں سنی گئی۔ ابتدائی تجربات کے بعد 24دسمبر 1906کی رات 9بجے پہلی بار انسانی آواز اور موسیقی پر مبنی ریڈیو نشریات پیش کی گئی۔ جب ریڈیو ایجاد ہوا تھا تو سمجھا جانے لگا کہ اخبار کا مستقبل تاریک ہو گیا اور اب ریڈیو ہی ابلاغ کا واحد ذریعہ ہوگا اور اخبار کی ضرورت باقی نہیں رہے گی مگر ریڈیو کے بعد ٹیلی ویژن میدان میں آگیا اس کے باوجود اخبار کی اہمیت برقرار رہی ریڈیو کی ایجاد نے انسانی زندگی میں انقلاب پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ریڈیو کی نشریات پوری دنیا میں یکساں پہنچتی رہی ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں روز بروز جدت آ رہی ہے انیسویں صدی میں ایجاد ہونے والے اس بلاغ کی اہمیت آج بھی جوں کی توں ہے ۔ انیسویں صدی میں ایجاد ہونے والے اس ابلاغی ذریعے نے اپنی اہمیت و افادیت ہمیشہ برقرار رکھی ہے اور اپنے سامعین تک تازہ ترین حالات و واقعات بر وقت پہنچائے ہیں ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پوری دنیا میں 85فیصد مجموعی آبادی ریڈیو سنتی ہے اور اس وقت دنیا بھر میں 51ہزار سے زائد ریڈیو سٹیشنز کے ذریعے کروڑوں افراد ریڈیو کی نشریات سے محظوظ ہوتے ہیں۔ موبائل فون کی ایجاد نے ریڈیو کو ایک نئی زندگی بخشی ہے اور موبائل سیٹ میں ایف ایم بینڈ کی سہولت نے ریڈیو کی گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا دیا ہے ۔ اب ہر سستے سے سستے موبائل فون میں بھی ایف ایم ریڈیو کی سہولت موجود ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ سماجی ، معاشرتی ، اور سیاسی شعور کی بیداری میں ریڈیو پاکستان کا اہم کرد ار رہا ہے ۔ پاکستان جب وجود میں آیا تو اس وقت صرف تین ریڈیو سٹیشن ڈھاکہ، پشاور اور لاہور پاکستان کے حصے میں آئے ۔ اس وقت پاکستان کے ان بڑی شہروں کراچی، پشاور، لاہور، کوئٹہ ، فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، بہاولپور، حیدر آباد، خیر پور، ڈیرہ اسماعیل خان، لاڑ کانہ ، تربت ، ایبٹ آباد، سبی، گلگت، خضدار، سکردو، ژوپ، چترال، لورالائی ، میانوالی، سرگودھا، مٹھی، کوہاٹ، بنوں ، گوادر اور بھٹ شاہ میں ریڈیو سٹیشن قائم ہیں۔ پاکستان کا کوئی بھی ایسا کونہ نہیں ہے جہاں ریڈیو کی نشریات نہ پہنچتی ہوں اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ریڈیو آج بھی ذرائع ابلاغ کا سب سے بڑا ، تیز ترین، موثر اور سستا ذریعہ ہے جہاں ٹیلی ویژن ، اخبار یا کسی بھی دوسرے ذریعہ ابلاغ کی پہنچ نہیں وہاں صرف اور صرف ریڈیو ہی کی آواز پہنچتی ہے ریڈیو پاکستان جیسا بڑا نیٹ ورک کسی کے پاس نہیں خواہ وہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری ۔ 1964ء میں جب پاکستان میں ٹیلی ویژن متعارف ہوا تو ریڈیو پاکستان نے اپنے با مقصد میعاری پروگراموں کی بدولت اپنی اہمیت کو کم نہ ہونے دیا اور ریڈیو کا طوطی بدستور بولتا رہا 1965اور 1971کی جنگ میں ریڈیو پاکستان کا کردار آج بھی بزرگوں کے ذہنوں میں نقش ہے جب ریڈیو پاکستان نے اپنے فوجی بھائیوں کے جذبے بلند کیے اسی طرح کوئی بھی ناگہانی آفت ہو یا دشمن کے پروپیگنڈا کا منہ توڑ جواب دینا مقصود ہوا تو ریڈیو پاکستان نے دوسرے قومی اداروں کے شانہ بشانہ قدم بقدم ساتھ دیا ۔ ریڈیو پاکستان کو اپنے ہاں پر کھڑا کرنے کے لیے چار سے پانچ ارب روپے کی ضرورت ہے۔ بادی النظر میں ریڈیو پاکستان اور دیگر اداروں جیسے پی آئی اے ، ریلوے اسٹیل مل جن پر حکومت اربوں روپے ماہانہ خسارہ برداشت کر رہی ہے ریڈیو پاکستان جیسے سرحدوں کے نظریاتی محافظ کے لیے یہ رقم اتنی زیادہ نہیں۔ وزیر اعظم پاکستان کو ریڈیو پاکستان جیسے قدیمی ثقافتی ادارے کی افادیت و اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے فوری طور پر جدید خطوط پر استوار کرنے اور اس کی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لیے احکامات دینے چاہیں تا کہ آواز کی دنیا کا ہی بے تاج بادشاہ ادارہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکے ۔ تصویر تو دھندلا جاتی ہے لیکن آواز کبھی نہیں مرتی۔

جواب دیں

Back to top button