Column

مزدور کو حق دو

غلام العارفین راجہ
اکثر بین الاقوامی شخصیات کے ناموں کے ساتھ نوبل انعام یافتہ کا لفظ سننے کو ملتا ہے۔ بظاہر یہ کوئی ایوارڈ محسوس ہوتا ہے لیکن یہ کوئی عام انعام نہیں ہوتا بلکہ اس انعام کو حاصل کرنے کے پیچھے کہی نا کہی بڑی جدوجہد بھی ہوتی ہے۔ اس ایوارڈ میں بھی دیگر موضوعات کی طرح کچھ چیزیں متنازعہ ہیں۔ خیر میڈیا رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں نوبل انعام یافتہ ماہر معیشت پروفیسر محمد یونس کو 6ماہ کی سزا سنا دی گئی ہے۔ آپ کو لیبر لاء کی خلاف ورزی پر سزا کا فیصلہ سنایا گیا ہے۔ ڈھاکہ کی لیبر کورٹ نے آپ کو مجرم قرار دیا ہے جس پر جواباً پروفیسر محمد یونس نے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی جو منظور ہو گئی ہے۔ ناقدین کے مطابق پچھلے کچھ عرصے سے بنگالی حکومت اور آپ کے درمیان کوئی رنجشیں بھی چل رہی ہیں جس کی بنیاد پر آپ کے حامی سزا کو سیاسی محرک قرار دے رہے ہیں۔ اس قدر بڑی شخصیت پر لیبر لاء کی خلاف ورزی پر فیصلہ آنا اچھا تاثر ہے۔ کیونکہ قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہیے اسی سے معاشرے مضبوط بھی ہوتے ہیں اور آئین کی بالادستی بھی قائم ہوتی ہے۔ نیز لیبر لاء پر عملدرآمد سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم وطنِ عزیز پاکستان کے اندر اس وقت مزدوروں کے حقوق کو دیکھتے ہیں تو ہمیں کھلم کُھلا مزدوروں کے حقوق کی پامالی کی جگہ جگہ مثالیں دکھائی دیتی ہیں اوپر سے ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت کی طرف تعین کردہ کم از کم اجرت بھی ادا نہیں کی جا رہی ہے۔ مہنگائی ہے کہ آسمان سے باتیں کر رہی ہے نام نہاد سیاستدان و ماہرین ٹی وی شوز میں بیٹھ کر کہتے ہیں مہنگائی پوری دنیا میں ہے۔ جی بالکل پوری دنیا میں مہنگائی ہے لیکن اُن ممالک میں مزدوروں کو حقوق کی فراہمی بھی یقینی بنائی جاتی ہے لیکن اس طرف توجہ دینے کو کوئی تیار نہیں ہیں۔ یکم مئی کو مزدور ڈے کے موقع پر کاروباری و سرمایہ دار طبقہ مختلف سیمینارز میں کھڑے ہو کر دوسروں کو حقوق العباد کا درس دیتا ہے لیکن اپنے ہی گھر اور دفتر میں اپنے ملازمین کو حق دینے کو تیار نہیں ہیں۔ درحقیقت ہم زبانی کلامی باتوں کا قائل ہیں لیکن ہماری زندگیوں میں عملی کارکردگی صفر ہے۔ دینِ اسلام میں مزدوروں کے لئے کوئی خاص دن نہیں ہے بلکہ ہر روز ہر لحمے مزدوروں کے حق کی ادائیگی پر زور دیا جاتا ہے۔
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کر دیا کرو۔ اس حدیث کی روشنی میں آج ہم اپنی زندگی میں کس مقام پر کھڑے ہیں ہمیں خود غور کرنا ہو گا۔ آج سرمایہ دار طبقے کی کوشش ہوتی ہے کہ ہمیں کام مکمل چاہیے مگر کام کرنے کی تنخواہ نہ ہونے کی برابر ہو۔ اس معاملے پر ہماری حکومتیں بھی فیل دکھائی دیتی ہے ملک میں لیبر لاء اور دیگر قوانین ہونے کے باوجود عملدرآمد کہی نظر نہیں آتا۔ متعلقہ ادارہ تمام تر سہولیات کے باوجود مزدوروں کو حقوق مہیا کرنے میں ناکام ہیں۔ ملک میں روزگار کے مواقع پہلے ہی سے نہ ہونے کے برابر ہیں جس وجہ سے عوام چند ہزار کے عوض بھی کام کرنے پر مجبور ہے جس سے معاشرے میں بنیادی حقوق کی پامالی عام سی بات ہو گئی ہے۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ کہی ہم بھی کسی کی مجبوری کا فائدہ تو نہیں اٹھا رہے ہیں؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button