ہم سمجھتے ہیں کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے، چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں جبری گمشدگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ کا حصہ ہیں۔
اعتزاز احسن سمیت متعدد افراد نے جبری گمشدگیوں کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ اس وقت حل ہو گا جب ہم سب مل کر اسے حل کریں گے، مسئلہ اس وقت حل ہوگا جب ہم سب اپنی اپنی ذمے داریاں نبھائیں گے، نوٹس تو نہیں کیا لیکن اٹارنی جنرل آئیں اور یہاں باتیں سنیں تو اچھا ہو گا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے سکتی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے، ہم پارلیمان کو قانون سازی کرنے کا حکم نہیں دے سکتے، قانون بن گیا ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، اسے پڑھ لیں، ہم سمجھتے تھے کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ اہم ہے تو کیس لگا دیا۔
لاپتہ افراد کے درخواست گزار خوشدل خان ملک نے کہا کہ عدالت حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بنا تو ہوا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کون سا کمیشن بنا ہے؟
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتہ افراد کمیشن بنایا گیا، اس کمیشن نے اب تک کچھ نہیں کیا، عدالت حکومت سے پوچھے 50 سال سے لاپتہ افراد پر قانون سازی کیوں نہیں کی؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟
پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ہماری اپیل پر رجسٹرار کے اعتراضات ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم آفس کی جانب سے لگائے گئے اعتراضات ختم کرتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی، صرف قانون کالعدم کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شعیب شاہین سے استفسار کیا آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں؟
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لطیف کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا ہے، ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کیے گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اعتراضات کو خارج کر کے درخواستیں سن رہے ہیں کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیر موجودگی میں کچھ ہوا، میں نے واپس آتے ہی یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی ہیں، آپ ذاتی بات نہ کریں، لاپتہ افراد سے متعلق بات کرنے ہے تو کریں۔
وکیل شعیب شاہین نے شیخ رشید، فرخ حبیب، صداقت عباسی اور اعظم خان سے متعلق دلائل دیے۔
چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے سوال کیا کہ آپ ان کے کیس کیسے لڑ رہے ہیں، ہم آپ کو سیاسی باتیں کرنے نہیں دیں گے، ابھی تک آپ نے ایک سیاسی جماعت کی باتیں کی ہیں، سیاسی باتیں نہ کریں، یہ میڈیا پر جا کر کر لینا، ہم یہاں آپ کو سیاسی باتیں نہیں کرنے دیں گے، ہم آپ کو اپنا مذاق اڑانے کی اجازت نہیں دیں گے، جب آپ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی بات کریں گے تو سوال بھی اٹھیں گے، ہم آپ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی اجازت نہیں دیں گے، پاکستان کا مسئلہ ہے کہ جو آدمی عہدے پر ہو وہ ذمے داری نہیں لیتا، جو آدمی عہدے پر ہو خود ذمے داری نہیں لیتا دوسرے پر ڈال دیتا ہے۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ شیخ رشید کو گمشدہ کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا شیخ رشید کو معصوم افراد کی فہرست میں شامل کریں؟ فرخ حبیب، صداقت عباسی وغیرہ سب سیاسی ورکز ہیں۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ یہ تمام افراد لاپتہ رہے اور واپس آکر پارٹی بدل لی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ جو آپ کی پارٹی چھوڑ گئے وہ سب واپس آجائیں؟ لاپتہ افراد کیس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے نہیں دیں گے، شیخ رشید نے دھرنا کیس میں نظرثانی دائر کی تو وہ اس کیس میں خود نہیں آسکتے؟ شیخ رشید اگر کہیں کہ انہوں نے آپ کو کیس لڑنے کا نہیں کہا تھا تو کیا کریں گے؟ لاپتہ افراد کے مسئلے کو سیاسی نہ بنائیں، لاپتہ افراد کا مسئلہ سنجیدہ نوعیت کا ہے، اعتزاز احسن نے درخواست میں کن تحفظات کا اظہار کیا؟
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لوگوں کی گمشدگی اور پھر ایک طرح سے نمودار ہونے کا نکتہ اُٹھایا گیا، اعتزاز احسن نے اوور آل صورتِ حال پر درخواست دائر کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اعتزاز احسن کے سامنے ان تمام افراد کو اٹھایا گیا یا پھر ان افراد نے کہا کہ ہمارا کیس لڑیں؟ یہ تمام لوگ اثر و رسوخ والے ہیں۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ ظلم تو اثر و رسوخ رکھنے والوں پر بھی ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ اپنی استدعا بتائیں۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ لاپتہ افراد کمیشن اپنا کام نہیں کر سکا اور نہ کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ کمیشن کب کا ہے؟ تب کس کی حکومت تھی؟
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ 2011ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران لاپتہ افراد کمیشن بنا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اعتزاز احسن کیا اپنی ہی حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کرانا چاہتے ہیں؟ اعتزاز احسن خود پیپلز پارٹی حکومت میں وزیر بھی رہے۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ جب کمیشن بنا وہ شاید وزیر نہیں تھے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اعتزاز احسن کیا اس وقت بھی پیپلز پارٹی میں ہیں؟
وکیل شعیب شاہین نے جواب دیا کہ جی وہ ابھی پیپلز پارٹی میں ہیں۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ میں شیریں مزاری کی رپورٹ پر انحصار کر رہا ہوں، شیریں مزاری نے رپورٹ دی کہ قومی اسبلی سے بل پاس ہوا اور سینیٹ میں غائب ہو گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ یہ بہت عجیب بات ہے کہ وفاقی وزیر کہہ رہا ہے کہ اس کا بل ہی غائب کر دیا گیا، چیئرمین سینیٹ کون ہے کس کے ووٹ سے بنے تھے؟
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ سینیٹرز کے ووٹ سے صادق سنجرانی چیٸرمین سینیٹ بنے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نام لیں کہ کس پارٹی کے ووٹ سے بنے تھے؟
وکیل شعیب شاہین نے جواب دیا کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے اتحاد سے وہ چیٸرمین سینیٹ بنے تھے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی پارٹی کے ووٹ سے بنے چیئرمین سینیٹ نے آپ کا بل گم کر دیا، کیا آپ نے اس پر انہیں ہٹانے کی درخواست کی؟ آپ نے چیئرمین سینیٹ پر ایک سنجیدہ الزام لگایا، بل غائب ہونے کا اگر سنجرانی صاحب پر الزام لگا رہے ہیں تو انہیں پارٹی کیوں نہیں بنایا۔
ڈائیلاگ بازی یہاں نہ کریں، چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ
چیف جسٹس نے وکیل شعیب شاہین سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈائیلاگ بازی یہاں نہ کریں، آپ نے پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن کا ذکر نہیں کیا، آپ کی پوری درخواست ایک سیاسی جماعت کے گرد گھومتی ہے، کیا آرٹیکل 184/3 کے تحت ایک سیاسی مسئلے کو سنیں؟ انگریزی محاورہ ہے کہ اگر آپ گرمی برداشت نہیں کر سکتے تو کچن میں بھی نہیں جا سکتے، مطیع اللّٰہ جان بھی تو غائب ہوئے تھے ان کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ مطیع اللّٰہ جان کس حکومت میں غائب ہوئے تھے؟
وکیل شعیب شاہین نے عدالتی سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ مطیع اللّٰہ کے غائب ہونے کے وقت پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کیوں نہیں کھڑے ہوئے مطیع اللّٰہ جان اور اسد طور کے لیے؟ کسی کے بھی ساتھ زیادتی ہو تو اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، ہمارے لیے ہر شہری محترم ہے وہ چاہے کسی بھی پارٹی سے ہو، میں بلوچستان ہائی کورٹ میں تھا تو ہر منگل کو لاپتہ افراد کے کیس سنتا تھا، اس وقت بلوچستان ہائی کورٹ نے بہت افراد کو بازیاب بھی کروایا، آمنہ جنجوعہ نے لاپتہ افراد سے متعلق بلاتفریق سب کے لیے آواز اٹھائی، آپ نے تفریق رکھی، آپ کے بعد آمنہ جنجوعہ کو سننا ہے۔
وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ کمیشن کی اپنی رپورٹ کے مطابق ابھی تک 2200 لوگ لاپتہ ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کتنے لوگ بازیاب ہوئے۔