Column

مستقل عنوان: عام آدمی

تحریر: امجد آفتاب

ملک میں موجود اداروں کی کارکردگی آپ نے دیکھنی ہے تو وہ آپ کو صحیح طور پر ’ فوٹو سیشن‘ میں دِکھے گی اس کے علاوہ اداروں کی کارکردگی دیکھنے کا کوئی پیمانہ نہیں۔
’ عام آدمی‘ کو اداروں کے اندر جا کر ان کی کارکردگی کا جائزہ کسی صورت نہیں لینا چاہیے یہ ان اداروں کی توہین کے مترادف ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک کا صحت کے متعلق ادارہ’ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ‘ کو ہی دیکھ لیجئے جب محکمہ صحت کے افسران آپ کو ’ فوٹو سیشن‘ اور پریس ریلیز میں یقین دلا دیتے ہیں کہ ہمارا شعبہ مریضوں کی اچھی دیکھ بھال کر رہا ہے ان کا علاج بہترین چل رہا ہے اور ہم مریض کے ساتھ آئے لواحقین کے ساتھ بھی اچھا سلوک رکھتے ہیں تو آپ کو اس بات پر یقین کر لینا چاہیے آپ کو ’ عام آدمی‘ بن کر سرکاری ہسپتال میں جائزہ لینے کی کیا ضرورت ہے ؟ آپ کو یہ دیکھنے کی کیا ضرورت ہے کہ وہاں پر مریض بستر کے نیچے پڑا تڑپ رہا ہے کوئی اس کو پوچھنے والا نہیں کوئی اس کا علاج کرنے والا نہیں۔ مریض بیچارہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا سٹاف اور ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر صاحبان اپنے موبائل اور ذاتی محفلوں میں مصروف ہیں۔ آپ کو یہ دیکھنے کی کیا ضرورت ہے کہ مریض کے ساتھ آئے لواحقین جب اس ظلم کیخلاف آواز اٹھاتے ہیں، ڈاکٹر صاحبان سے رحم کی اپیل مانگتے ہیں اور وہ گستاخ مریض کی آہ و بکا سننے کو کہتے ہیں تو درجہ چہارم کے ملازمین اور سکیورٹی اسٹاف ان کے ساتھ مار پیٹ کر کے ان کو دھکے دے کر ہسپتال سے باہر بھگا دیتے ہیں عام آدمی کو یہ سب دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اب بھلا اس میں ہسپتال میں بیٹھے ایم ایس صاحب یا دیگر ذمہ داروں کا کیا قصور انہوں نے تو آپ کو اپنے ’ فوٹو سیشن‘ میں سب او کے اور اچھا ہے کی رپورٹ تو دے دی تھی یہ تو آپ کا قصور ہے کہ آپ نے ان کے فوٹو سیشن والی کارکردگی کا یقین نہیں کیا اور خود ہسپتال چلے گئے اب وہاں جائو گے تو یہ سب تو دیکھنا پڑے گا کیونکہ یہ فوٹو سیشن جیسی آنکھوں میں دھول جھونکنے والی کارکردگی نہیں بلکہ ان کی روز مرہ کی حقیقی کارکردگی ہے جو کہ بہت بھیانک ہے۔
اسی طرح ملک میں مہنگائی کا ہر طرف شور ہے
’ عام آدمی‘ مہنگائی کی چکی میں پس چکا ہے
ذخیرہ اندوز اور منافع خور ہر چیز کے مانے ریٹ وصول کر رہے ہیں جبکہ ہر ضلع میں موجود ڈپٹی کمشنرز صاحبان اپنے لائو لشکر کے ساتھ صبح سویرے سبزی منڈیوں پر پہنچ جاتے ہیں فوٹو سیشن کراتے ہیں، دوپہر کو اضلاع کے پرائس کنٹرول مجسٹریٹس سے لیکر تمام افسر موجود ہوتے ہیں ۔
فوٹو سیشن ہوتا ہے، میٹنگ کا ایجنڈا پریس ریلیز کی صورت میں آتا ہے، جس میں منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں کو وارننگ دی جاتی ہے کہ آپ کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا اور عام آدمی کو یقین دلایا جاتا ہے کہ بس بہت ہو گیا آپ کے ساتھ ظلم، اب آپ کے اچھے دن آنے والے ہیں۔
جب یہ فوٹو سیشن والا ڈرامہ ختم ہوتا ہے، تب عام آدمی ہوتا ہے اور سامنے مافیا جو اس کو نوچ نوچ کر روزانہ کی بنیاد پر کھاتا ہے۔
اسی طرح آپ پولیس ڈیپارٹمنٹ کا دیکھ لیں جب ضلعی ڈی پی او صاحبان مختلف تھانوں کا وزٹ کرتے ہیں، فوٹو سیشن ہوتے ہیں، تب سب کچھ اچھا ہے اچھا ہے، کی رپورٹ دیکھنے کو ملتی ہے، مگر جب یہ فوٹو سیشن کرا کے واپس اپنے دفاتر میں جا بیٹھتے ہیں تو عام عوام کا حال جو تھانوں میں ہوتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
ملزم کو بے قصور اور بے قصور کو ملزم بنتے دیر نہیں لگتی۔
اسی طرح ریونیو ڈیپارٹمنٹ کو دیکھ لیں افسران فوٹو سیشن کے لیے آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، بعد میں یہی پٹواری حضرات لوگوں کو ان کی جائیدادوں، زمینوں سے محروم کر دیتے ہیں۔
محکمہ زراعت کا حال اور ان کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے آج بیچارہ کسان کھاد کے حصول کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے۔
سرکاری نرخوں پر اسے کھاد کہیں دستیاب نہیں ہے۔ کسان کی گندم کی فصل متاثر ہونے کا خدشہ ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ اور محکمہ زراعت والے فوٹو سیشن کے لیے ایک، دو چھوٹے دکانداروں کو جرمانے کر کے چلے جاتے ہیں، بعد میں کسان جانے اور کھاد مافیا۔
یقیناً ہر ادارے ہر شعبے میں اچھے لوگ اچھے افسر بھی موجود ہیں، جو اپنی ذمہ داری بخوبی انجام دے رہے ہیں لیکن اکثریت فوٹو سیشن والی ہے، فوٹو سیشن کرو اور اپنی موج میں رہو۔
عام عوام اور ہم جیسی ادنیٰ لکھاری بڑے تخریب کار ہیں، جو ان کی فوٹو سیشن والی کارکردگی پر یقین نہیں رکھتے حالانکہ ہمیں تو اندھا یقین ہونا چاہیے کہ ملک کا ہر شعبہ بہترین کام کر رہا ہے۔
اگر آپ تحقیق کریں کہ ہمارے ملک کے اکثر ادارے کیوں ڈیفالٹ کر گئے ہیں یا زبوں حالی کا شکار ہیں تو دیگر وجوہات کے بعد ایک بڑی وجہ ’ فوٹو سیشن‘ بھی ہو گی۔
پی آئی اے، ریلوے سمیت دیگر ادارے جو ڈیفالٹ ہیں جو حکومت پر بوجھ ہیں ان کی ڈیفالٹ ہونے کی وجہ وہ افسر ہیں جو اپنے دفاتر سے اٹھتے ہیں ’ فوٹو سیشن‘ کراتے ہیں سب اچھا ہی کہ رپورٹ بنا کر واپس اپنے دفتروں میں جا بیٹھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بیشتر اداروں کی کارکردگی صفر ہوتی جا رہی ہے اس لیے ہر کچھ عرصہ بعد ان کی ڈیفالٹ کی خبریں زیر گردش رہتی ہیں۔
اکثر اداروں کو پرائیویٹ کرنے کی جو بات زیر گردش ہے اس کی اہم وجہ وہ نا اہل افسران ہیں جو اداروں کو صرف ’ فوٹو سیشن‘ پر چلاتے ہیں۔ آج ان کی کی وجہ سے اداروں کو پرائیویٹ کیا جا رہا ہے۔
میرے حکومت کو مشورہ ہے کہ اگر آپ نے ملک میں موجود اداروں کی کارکردگی بہتر کرنی ہے تو ’ فوٹو سیشن‘ پر پابندی لگا دیں سب ٹھیک ہو جائے گا وگرنہ یہ ’ فوٹو سیشن‘ والی کارکردگی ملک کو دیمک کی طرح چاٹ جائے گی۔

جواب دیں

Back to top button