Column

بی جے پی کا زوال اور بھارت سے آزادی کے نعرے

عبد الباسط علوی
منی پور کی صورتحال بھارت میں اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک بڑی مثال ہے۔ بھارت باغی گروپوں، ریاستی افواج اور نیم فوجی تنظیموں کے مسلح تنازعات کی وجہ سے انسانی حقوق کے مسلسل چیلنجوں اور تنقید کا سامنا کر رہا ہے۔ ماورائے عدالت قتل، من مانی حراستوں اور تشدد کے الزامات کے متعدد واقعات نے احتساب اور شفافیت کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ آرمڈ فورسز خصوصی اختیارات ایکٹ (AFSPA)ایک متنازعہ مسئلہ رہا ہے جو سیکیورٹی فورسز کو وسیع اختیارات دیتا ہے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اسے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ منی پور میں طویل تنازع غیر متناسب طور پر خواتین کو متاثر کرتا ہے، جو اکثر خود کو تشدد اور بدسلوکی کا شکار پاتی ہیں۔
منی پور میں صحافیوں اور کارکنوں کو آزادی اظہار کا استعمال کرنے میں بھی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں ہراساں کرنے، دھمکیاں دینے اور حملوں کی مثالیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دیگر عوامی خدشات پر رپورٹ کرنے کی صلاحیت کو محدود کرتی ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں شفافیت اور جوابدہی کو فروغ دینے کے لیے ایک آزاد اور متحرک میڈیا بہت ضروری ہے، لیکن بھارت اس تناظر میں اسے یقینی بنانے میں ناکام رہا ہے۔
جموں و کشمیر کا خطہ طویل عرصے سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جغرافیائی سیاسی کشیدگی اور تنازعات کا باعث رہا ہے۔ ہندوستان کے غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر کے تناظر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر میں بھارتی فوج نے بیشمار لوگوں کو شہید کیا ہے اور خواتین کی عصمت دری کی گئی ہے۔ بھارت کی طرف سے کشمیر میں ظلم و ستم کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ بھارتی فوج کی موجودگی کی وجہ سے وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں جن میں ماورائے عدالت قتل، من مانی حراستیں اور تشدد کے الزامات شامل ہیں۔ بھارتی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر میں مواصلاتی بلیک آئوٹ اور انٹرنیٹ پابندیوں کے نفاذ کو معلومات کے بہائو میں رکاوٹ پیدا کرنے، اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے اور ضروری خدمات تک رسائی میں رکاوٹ ڈالنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی طرف سے پیلٹ گنز کا استعمال بھی ایک متنازعہ موضوع رہا ہے، جس کے نتیجے میں بیشمار لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ ان کے استعمال نے احتجاج اور شہری بدامنی کے انتظام میں استعمال ہونے والی طاقت کے تناسب کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔ من مانی حراستوں اور افراد کی نقل و حرکت پر پابندیوں کی اطلاعات نے شہری آزادیوں کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ روک تھام کے حراستی قوانین کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ حکام کو لوگوں کو بغیر رسمی الزامات کے اور بعض اوقات طویل مدت کے لیے بھی حراست میں لے سکتے ہیں۔ اقلیتی برادریوں، جیسے کشمیری پنڈت اور مقامی گروہوں کو تنازعات کی وجہ سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں 1990کی دہائی کے اوائل میں کشمیری پنڈتوں کا جبری انخلا بھی شامل ہے۔
بھارت میں انسانی حقوق کے چیلنجوں کی پیچیدہ اور کثیر جہتی نوعیت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی صورتحال کو بین الاقوامی توجہ دلائی ہے۔ مختلف ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے پرامن حل کا مطالبہ کیا ہے اور انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی سہولت کاری کے لیے سفارتی کوششیں خطے میں طویل مدتی استحکام اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے خدشات کو دور کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ہے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے سے بھی انکاری رہا ہے۔ بھارت کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو بھی مسلسل نظر انداز کر رہا ہے۔
ہندوستانی عوام وزیر اعظم مودی کے ہندوستان کو ایک سیکولر ریاست سے ہندو مت مرکز ملک میں تبدیل کرنے کے ارادوں سے پوری طرح واقف ہیں۔ مودی حکومت کی پالیسیوں اور اقلیتوں کے خلاف اس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے مایوسی بڑھی ہے، جس کی وجہ سے بی جے پی کی قیادت والی حکومت کی حمایت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لداخ؍ کارگل اور ملک کے دیگر حصوں میں ہندوستان سے آزادی کی آوازیں بھی بلند ہوئی ہیں۔ حال ہی میں، ہندوستان کے زیر انتظام علاقے میں کشمیریوں نے مودی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا مظاہرہ کیا ہے۔ لداخ میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں 26نشستوں میں سے بی جے پی نے صرف 2سیٹیں حاصل کیں، جو عوامی جذبات میں تبدیلی کا واضح اشارہ ہے۔
اس سال کے شروع میں بھی بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کو ایک اہم دھچکا لگا جب ریاست کرناٹک کے ووٹروں نے اہم بلدیاتی انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی کی ہندو قوم پرست پالیسیوں کو مسترد کر دیا، جس سے ملک کے جنوب میں اس کا واحد مضبوط گڑھ ختم ہو گیا۔ کرناٹک نے بی جے پی کے دائیں بازو کے ہندو قوم پرست نظریہ، جسے ہندو توا کے نام سے جانا جاتا ہے، کے لیے ایک آزمائشی میدان، یا ’’ لیبارٹری‘‘ کا کام کیا تھا۔ کچھ تجزیہ کار اس شکست کو مودی کے لیے چیلنجوں کی ایک ممکنہ علامت کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ وہ اقتدار میں دوسری دہائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ریاست کی قانون ساز اسمبلی میں، اپوزیشن کانگریس پارٹی 135سیٹوں کے ساتھ جیت کر ابھری، جبکہ بی جے پی کو صرف 66سیٹیں ملیں جس سے مودی اور بی جے پی کی نام نہاد مقبولیت کا پول کھل گیا ہے۔ کرناٹک کی 65ملین آبادی جس میں 84%ہندو ہیں، بی جے پی کے کٹر حامیوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ حالیہ برسوں میں ریاست میں ہندو توا سے جڑی قانون سازی کی گئی ہے، جیسے کہ ہندوئوں کے لیے مقدس سمجھی جانے والی گائے کی فروخت اور ذبیح پر پابندی لگانا وغیرہ۔ مزید برآں، ایک متنازعہ انسداد تبدیلی بل منظور کیا گیا، جس سے بین المذاہب جوڑوں کے لیے شادی کرنا مزید مشکل ہو گیا۔ پچھلے سال، کرناٹک نے مسلم لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر بھی پابندی لگا دی تھی، جس کے نتیجے میں مظاہرے ہوئے اور مذہبی تنا مزید بڑھ گیا۔
بی جے پی کو ملنے والے حالیہ انتخابی دھچکے کو لوگ اس کے زوال کی شروعات کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ہندوستان میں ہندو توا کے نظریے کی ناکامی میں ایک بڑا سبق بھی ہے کہ انتہا پسندی میں پائیداری کا فقدان ہوتا ہے اور یہ طویل عرصے تک اپنے آپ کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ نرم رویہ، تمام مسائل کو یکساں اور شفاف طریقے سے حل کرنا لوگوں کے دل جیتنے میں زیادہ کارآمد نظر آتا ہے۔ بھارت کی صورتحال سے پاکستان کے وطن دشمن اور علیحدگی پسند عناصر کو بھی سبق حاصل کرنا چاہئے۔
قارئین! پاکستان کے حالات ہندوستان کی نسبت زیادہ سازگار، پر امن اور مثالی ہیں، جو تمام شہریوں کو پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں کہیں بھی جانے، رہائش اختیار کرنے اور کام کرنے کی آزادی فراہم کرتے ہیں۔ امن و امان کی صورتحال بھی تسلی بخش ہے، اقلیتوں کو عزت اور مساوی حقوق حاصل ہیں۔ پاکستان اور پاک فوج کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں بھارت کے مقابلے میں صورتحال بہت بہتر ہے۔ پاکستان میں لوگ ملک میں رہنے اور اس کی مضبوطی میں فعال طور پر حصہ ڈالنے کے فوائد کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ امر علیحدگی پسندوں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ بالکل آزاد یا بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ رہنا ہی ان کے مفاد میں ہے۔ امید واثق ہے کہ تمام اکائیاں مل کر پاکستان کو مزید مضبوط کریں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button