قصہ ایک مشاعرے میں شرکت کا

تحریر : رفیع صحرائی
یہ 1985ء کا ذکر ہے۔ ہم پر شاعری کا نیا نیا جنون طاری ہوا تھا۔ چسکا تو 1977ء سے لگ چکا تھا جب ہم ساتویں جماعت کے طالب علم تھے اور ماسٹر محمد اقبال صاحب کے ہاتھوں پوری کلاس کی درگت بننے کے بعد ردِعمل کے طور پر ایک نظم کہی تھی چند دوستوں کو اگلے دن سنائی تو سکول بھر میں چرچا ہو گیا۔ بات اساتذہ صاحبان کے کانوں تک بھی پہنچ گئی۔ اقبال صاحب شاعرانہ ذوق بھی رکھتے تھے۔ ان تک بھی خبر پہنچی تو مجھے بلا بھیجا۔ نظم سنی اور پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے فرمایا۔
’’ ایک دن ضرور نام پیدا کرو گے‘‘
استاد کی آشیرباد نے شوق کو مہمیز کر دیا۔ بچوں کا نوائے وقت میں ایک نعت بھیجی تو انچارج صفحہ جناب عاطر ہاشمی نے اصلاح کے بعد نعت شائع کر دی۔ یوں شاعری کا شوق پروان چڑھنے لگا۔ 1982ء میں معروف شاعر رند اجنبی بطور اسٹیشن ماسٹر ریلوے ہمارے شہر تشریف لائے تو ان کے مشورے سے ادارہ ادب و ثقافت منڈی ہیرا سنگھ کے نام سے باقاعدہ ادبی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے پہلے اجلاس میں راقم کے علاوہ شفقت رسول قمر، زاہد وفا، یاسین انجم، نعیم اللہ خان وردگ اور جناب رند اجنبی نے شرکت کی۔ بعد میں عبدالستار خادم، یاسین سلیم، چودھری مصطفیٰ طاہر، نسیم احمد نسیم، سیّد طارق انجان گیلانی، محمد احمد شام، امین بسمل اور سائنس ٹیچر جاوید اقبال بھی شامل ہو گئے۔ اس ادبی تنظیم کے زیرِ اہتمام بڑے یادگار مشاعرے منعقد کیے گئے جن میں معروف شاعر اور ریڈیو پاکستان کراچی میں مصلح زبان کے عہدے پر فائز رہنے والے جناب شمس زبیری ( معروف کمپیئر طارق عزیز اور مسرور انور کے استاد)، جناب مرزا حدید، خادم جعفری، فیض صحرائی، رائے زاہد نے شرکت کی۔ بعد ازاں شفقت رسول قمر کی کوششوں سے ایک بہت بڑا مشاعرہ بھی انعقاد پذیر ہوا جس کی صدارت جناب ظفراقبال نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی وفاقی وزیر میاں یاسین وٹو تھے۔ اس مشاعرہ میں مقامی شعرا ء کے علاوہ ظہور حسین ظہور، صفدر اجمیری، مسعود اوکاڑوی، سرور جاوی اور بہت سے دوسرے نامور شعرا ء شریک ہوئے۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ شہر کی ادبی فضا ان دنوں بڑے جوبن پر تھی۔
ان دنوں امین بسمل شہر سے چھ کلومیٹر دور آبادی پرمانند ( موجودہ رسول پور) میں قیام پذیر ہو چکے تھے جہاں انہوں نے دیسی گھی کا کاروبار شروع کر رکھا تھا۔ امین بسمل نے اپنے دوست ملک اسحاق کے ساتھ مل کر آبادی پرمانند میں مشاعرہ منعقد کروانے کا پروگرام بنایا اور شاعروں کی دستیابی میرے ذمہ لگا دی۔ آبادی پرمانند حجرہ منڈی ہیرا سنگھ روڈ پر ایک چھوٹا سا گائوں تھا جہاں کے لوگوں کے لیے مشاعرہ ایک بالکل نئی چیز تھی۔ اس سے قبل انہوں نے مشاعرہ کا نام بھی نہ سنا تھا۔ ایک طرف شدید سردی کا موسم تھا اور دوسری طرف ہم جنونی تھے۔ منڈی ہیرا سنگھ ( منڈی احمد آباد) سے میرے علاوہ شفقت رسول قمر، یاسین انجم، یاسین دیوانہ، زاہد وفا اور مصطفیٰ طاہر۔ کنگن پور سے صابر علی بسمل، عباد نبیل شاد ( ڈاکٹر عباد نبیل شاد اس وقت اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں پرنسپل ہیں)۔ بصیر پور سے عطا رازی، مصطفیٰ خار اور رفیق نسیم وقت مقررہ سے بہت پہلے امین بسمل کے پاس پہنچ گئے۔ امین بسمل نے دیسی گھی میں بھنے ہوئے دیسی مرغ سے مہمانوں کی تواضع کی اور کھانے سے فراغت کے بعد غیر رسمی ادبی محفل شروع ہو گئی۔ مشاعرے کے لیے پنڈال ایک بڑی سی حویلی میں سجایا گیا تھا۔ جب کافی دیر گزر گئی تو میں نے امین بسمل سے پوچھا کہ مشاعرہ شروع ہونے میں کتنی دیر ہے؟۔ انہوں نے بتایا کہ سب تیاری مکمل ہے بس لائوڈ سپیکر کا انتظار ہے۔ پتا چلا کہ گائوں میں ایک مذہبی جلسہ ہے اور مولوی صاحب کی تقریر کے بعد لائوڈ سپیکر دستیاب ہو گا۔ ہم لوگ ہوا خوری کے لیے باہر نکل پڑے۔ گائوں کے واحد بازار کے ایک دکان کا تھڑا سٹیج بنا ہوا تھا۔ بازار بہت چوڑا تھا جس میں صفیں بچھی تھیں اور لوگ ان پر بیٹھے مولوی صاحب کی تقریر سن رہے تھے۔ شفقت رسول قمر نے تجویز دی کہ کیوں نہ ادھر ادھر پھرنے کی بجائے تقریر سنی جائے۔ سب نے اتفاق کیا اور ہم لوگ بھی صفوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ اب حاضرین کی تعداد دوگنا ہو گئی جس نے مولانا کے جوشِ خطابت کو بھی دوچند کر دیا۔ تقریر طویل ہوتی گئی اور ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ مذہبی جلسہ تھا۔ کس میں اتنی جرأت تھی کہ مولانا صاحب کو تقریر مختصر کرنے کو کہتا۔ صابر علی بسمل ہم سب سے سنیئر تھے۔ انہیں ایک ترکیب سوجھی۔ وہ بار بار اشارے سے مولوی صاحب کو گھڑی دکھانے لگے۔ حضرت صاحب کو بھی شاید احساس ہو گیا کہ وہ زیادہ وقت لے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر کو سمیٹا اور جلسہ اختتام پذیر ہوا۔
محفلِ مشاعرہ کے لیے لائوڈ سپیکر لگاتے لگاتے رات کے دس بج گئے۔ دیہات میں سردی کے موسم میں رات دس بجے کا مطلب آدھی رات ہوتا ہے۔ لائوڈ سپیکر تو لگ گیا مگر سامعین میں شعرا ء کرام کے علاوہ تین چار لوگ ہی پنڈال میں موجود تھے۔ میں نے شفقت رسول قمر سے مشورہ کیا اور پھر لائوڈ سپیکر پر اعلان کر دیا کہ محفلِ مشاعرہ میں عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کے چھوٹے بھائی ثنا اللہ عیسیٰ خیلوی موجود ہیں جو اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔ ساتھ ہی میں نے شفقت کو اشارہ کیا اور اس نے مائیک سنبھال کر اپنی پرسوز آواز میں گیت چھیڑ دیا
’’تسا کوں مانڑ وطناں دا
اسی ہاں یار پردیسی‘‘
بس پھر کیا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ ہاتھوں میں پیڑھیاں اور مُوڑھے اٹھائے، گرم چادروں اور رضائیوں میں ملفوف ہو کر جوق در جوق پنڈال میں پہنچنا شروع ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں پنڈال بھر گیا اور مشاعرہ شروع ہو گیا۔ اس مشاعرے کے سامعین و حاضرین بھی خوب تھے۔ انہوں نے باقاعدہ شاعروں پر نوٹ وارنے شروع کر دئیے۔ ان کے لیے ویسے بھی مشاعرہ نئی چیز تھی۔ وہ داد بھی دل کھول کر دے رہے تھے۔ امین بسمل کے دوست ملک اسحاق کا داد دینے کا انداز سب سے نرالا تھا۔ جونہی کسی اچھے شعر پر شعرا ء کرام کی طرف سے مقرّر کی صدا بلند ہوتی تو ملک اسحاق اپنی طرف سے ان کی تصحیح کرتے ہوئے تین مرتبہ ’’ دوبرّر، دوبرّر‘‘ کی صدا بلند کرتے اور ہر بار اپنے مخصوص انداز میں دایاں کندھا اچکاتے تھے۔ یہ بھی دیکھنے والا نظارہ ہوتا تھا۔ مشاعرے کے اختتام پر سامعین کے مزاج اور موڈ کو دیکھتے ہوئے شفقت رسول قمر نے تین گیت سنائے اور خوب نوٹ سمیٹے۔ اگلے روز سامعین سے ملی ’’ ویلوں‘‘ کو اکٹھا کر کے ہم سب نے زبردست ضیافت اڑائی۔