کیا الکٹیبلز کی اڑانیں جمہوریت کے لئے ہیں؟
بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 30اہم سیاسی رہنمائوں اور الیکٹیبلز نے اس وقت مسلم لیگ ن میں باضابطہ شمولیت کا اعلان کیا جب چند روز قبل میاں نوازشریف ملک کے سب سے نظرانداز صوبہ بلوچستان کے مرکز کوئٹہ کے پہلے سیاسی دورے پر آئے تھے، ان الیکٹیبلز اور سیاسی رہنمائوں میں سابق وزیراعلی جام کمال سردار عبدالرحمان کھتران، محمد خان لہڑی، شعیب نوشیروانی اور دیگر نے میاں نوازشریف پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا، اگرچہ میاں نوازشریف کے کوئٹہ کے دورے پریہ خبر بھی ملی ہے کہ بہت جلد مسلم لیگ ن اور بلوچستان عوامی پارٹی یا باپ باضابطہ انتخابی اتحاد بھی کریں گے مگر اس موقع پر عجیب اتفاق دیکھنے کو ملا جس مسلم لیگ ن نے بنی گالہ اور بلاول ہائوس پر کوئٹہ میں سجدہ کرنے کے الزام لگایا وہی مسلم لیگ ن یا رائے ونڈ بھی گزشتہ روز باپ پارٹی کے دروازے پر دستک دینے میں مجبور ہوئی۔ میاں نوازشریف کے کوئٹہ دورے کے بارے میں ایک اہم سوال یہ ہے جب وہ وزیراعظم تھے اس وقت بلوچستان آنے کا خیال کیوں نہیں آیا؟۔ جب آج الیکشن قریب آگئے تو انہیں بلوچستان کا دورہ کرنے کا خیال آیا ؟۔ اسی طرح کوئٹہ میں مسلم لیگ ن اور باپ پارٹی کے درمیان انتخابات میں اتحاد کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ وہی باپ پارٹی ہے جس کو 2018ء میں الیکشن سے قبل پی پی اور پی ٹی آئی نے ن لیگ کی کوکھ سے جنم دیا تھا، اس پارٹی کی تشکیل کے بعد صوبے میں مسلم لیگ ن کے وزیراعلی ثنا اللہ زہری ازخود مستعفی ہوگئے تھے۔ باپ پارٹی کے قدوس بزنجو وزیراعلیٰ بن گئے تھے، بعد میں 2018ء میں مسلم لیگ ن سینیٹ میں واضح اکثریت رکھنے کے باوجود اپنا چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے میں ناکام رہی تھی۔ سینیٹ کے الیکشن میں سیاسی حوالے سے غیر معروف نام صادق سنجرانی چیئرمین بن گئے تھے۔ اس وقت میاں نوازشریف اور مریم نواز نے باپ پارٹی کی جانب اپنی توپوں کا رخ کر دیاتھا۔ مریم نوازنے اس وقت کہا تھا کہ باپ والے اپنے باپ کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کرتے، باپ کو جب ان کا باپ کہتا ہے تو وہ حکومتی بینچوں پر بیٹھ جاتے ہیں، جب باپ کا حکم ہوتا ہے تو وہ اپوزیشن میں بیٹھ جاتے ہیں۔ باپ پارٹی کی کہانی پاکستان میں حالیہ ہائبرڈ نظام کی بنیاد سے جوڑی ہوئی ہے، جب بلوچستان عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو موجودہ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، صادق سنجرانی، قدوس بزنجو، جان محمد جمالی، نواب ذوالفقار علی مگسی، سردار صالح بھوتانی سمیت بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کے حامی تصور کئے جانے والے سیاستدان باپ میں شامل ہوگئے۔ اس وقت سے لیکر آج تک طاقتور لوگوں کی باپ پارٹی سیاسی اثر و رسوخ کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے۔ قومی اسمبلی یا سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک ہو جو باپ چاہے گی وہی ہوگا، پی ٹی آئی کی حکومت بنانے اور عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے میں اسی باپ پارٹی کا کلیدی کردار رہا، لیکن کیا آج بھی باپ کسی کی اجازت سے میاں نوازشریف سے اتحاد کرنے جارہی ہے، کیا آج بھی کچھ بدلا ہے؟، ویسے تو بلوچستان میں نظریاتی سیاست کئی دہائیوں سے دم توڑ چکی ہے اور منصب اقتدار کی سیاست انہی الیکٹیبلز کے گرد گھومتی رہتی ہے، ماضی میں مسلم لیگ ن کو الوداع کہنے والوں کو ہدف تنقید بنانے والی مسلم لیگ ن کی قیادت نے بلوچستان میں ایک بار پھر دو درجن سے زائد الیکٹیبلز کو گلے لگاکر سیاسی مخالفین کو کھل کر تنقید کا موقع فراہم کر دیا۔ پاکستان کی عجیب سیاست ہے، دوست کب دشمن اور دشمن کب دوست بن جائیں، باپ پارٹی کو مسلم لیگ ن کے اکابرین حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے مگر آج وہی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنا چاہئے، میاں نوازشریف نے کوئٹہ میں کہا کہ بلوچستان کی ترقی انہیں ہمیشہ عزیز رہی ہے، انہوں کہ کہا کہ بلوچستان میں انہوں نے ہزاروں کلومیٹر سڑکوں کا جال بچھانے کا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ میاں نوازشریف کے دور حکومت میں بلوچستان کاسب سے بڑا مسئلہ جوکہ غیر آئینی اور جبری گمشیدگیوں کا ہے کیا یہ مسئلہ کبھی بھی حل ہوا تھا؟۔ 2013ء کے نوازشریف کے دور حکومت میں صوبے کے سی پیک پراجیکٹ کو اپنے صوبے کو کیوں لے کرگئے؟۔ مسلم لیگ ن کے ایک رہنما حسن اقبال نے کہا کہ باپ پارٹی نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کیا تھا اور16ماہ میں ہماری مخلوط حکومت کو مضبوط کیا،2018ء میں بلوچستان کی سیاست میں جو فریکچر کئے گئے تھے اب ان ٹکڑوں کو اکٹھا کیا جا رہا ہے، صوبے میں جام کمال اور ان کا خاندان پارٹیاں بدلنے کے لئے مشہور ہے، پرویز مشرف کے دور میں جام کمال کے والد جام یوسف مسلم لیگ ق کی طرف سے بلوچستان کے وزیراعلیٰ بنے تھے، جب ق لیگ پر برا وقت آیا تو جام کمال مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے اور میاں نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں بھی وزیر رہے اور جب ن لیگ کے اقتدار چراغ بجھنے لگا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، بعد میں باپ پارٹی کے بانی صدر بن گئے۔ سب کو معلوم ہے باپ پارٹی کس طرح بنائی گئی تھی اور اب بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ کون جام کمال اور دوسرے بلوچ رہنمائوں کو ن لیگ کی جانب دھکیل رہا ہے، ان الیکٹیبلز اور سیاسی رہنمائوں کی مسلم لیگ ن میں شمولیت کے بارے میں اہم سوال یہ ہے کہ یہ لوگ صوبے میں جمہوری روایات کی مضبوطی کے لئے مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے ہیں یا صوبے کو جو اہم مسائل درپیش ہیں انہیں حل کرنے کے لئے شامل ہوئے ہیں؟ کیا الیکٹیبلز ہی پاکستان کے اصل کنگ میکرز ہیں ؟ کیا ان سے خیر کی توقع کی جاسکتی ہیں ؟ کیونکہ یہی لوگ جس بھی آشیانے میں گئے ہیں اسے اجاڑ کر واپس آئے ہیں اورجس طریقے سے یہ سیاسی رہنما اور الیکٹیبلز مسلم لیگ ن میں شامل ہوئے ہیں، اس موقع پر صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ کہاں گئی بلوچی روایات؟ کہاں گیا پشتون کلچر؟ کیا ہمارے صوبے کے رہنما اور الیکٹیبلز مسلم لیگ ن میں اس لئے شامل ہوئے کہ اپنی تقدیر یا عوام کی تقدیر بدل دیں گے ؟ اگر یہ لوگ عوام کی تقدیر بدلنے کا پہلے سوچتے تو آج صوبے کے حالات مختلف ہوتے کیونکہ بلوچستان کی معاشرتی ترقی کے بارے میں خود ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ اس صوبے میں بہت کم معاشرتی ترقی ہوئی ہے اور صوبے کے 71فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور50فیصد سے زیادہ خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ میرے خیال میں اگر ن لیگ اور باپ پارٹی آنے والے الیکشن میں انتخابات لڑتے ہیں، تو انتخابات سے پہلے اپنے منشور میں بلوچستان کی محرومیوں کو شامل کریں، منشور میں صوبے کے ساتھ جو زیادتیاں ہورہی ہیں، ان کا خاتمہ شامل کیا جائے اور ساتھ ہی منشور میں بلوچستان کے لاپتہ افراد کے مسئلہ کو اولیت دینی چاہئے۔