تازہ ترینخبریںسیاسیات

اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے خفیہ ادارے کے سربراہ نے بے نظیر بھٹو پر دباوٗ ڈالا٬ سینئر صحافی

پاکستان میں کچھ عرصے کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بحث کا آغاز ہوجاتا ہے اور ایک مخصوص لابی اس حوالے سے ذہن سازی کرتی نظر آتی ہے۔

اب ملک کے سینئر صحافی حامد میر نے ایک خطرناک انکشاف کرتے ہوئے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ ملک کے خفیہ ادارے کے ایک سربراہ نے بھی منتخب حکومت پر ایسا پریشر ڈالا تھا۔

وہ لکھتے ہیں کہ آج نہیں تو کل یہ حقیقت ضرور سامنے آئے گی کہ 1988ء کے بعد متعدد منتخب وزرائے اعظم پر اسرائیل کوتسلیم کرنے کے لئے دبائو ڈالا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پر اس دبائو کا آغاز 1989ء میں ہوگیا تھا لیکن انہوں نے دبائو ڈالنے والے خفیہ ادارے کے سربراہ کا ٹرانسفر کردیا تھا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ 1990ء میں انہیں کرپشن کے الزام میں برطرف کیاگیا اور 1996ء میں ماورائے عدالت قتل و غارت میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر برطرف کیا گیا۔

اس حوالے سے سیاق و سباق میں حامد میر لکھتے ہیں کہ اہم پاکستان کا اسرائیل کے بارے میں موقف بڑا واضح ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا اور جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوتا تو اسرائیل کوتسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ 1994ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر جینوا میں محترمہ بے نظیر بھٹو اوریاسر عرفات کی ایک ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں یاسر عرفات نے محترمہ بے نظیربھٹو سے کہا تھا کہ ہمیں مار مار کر اسرائیل سے مذاکرات پر مجبور کیا جا رہا ہے ہماری گزارش ہے کہ پاکستان ابھی اسرائیل سے مذاکرات نہ کرے ورنہ ہم مزید کمزور ہو جائیں گے۔

ملاقات کے بعد مجھے یاسر عرفات اور اگلے دن ڈیووس میں اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کے ساتھ گفتگو کا موقع ملا اور مجھے پتہ چلا کہ پاکستان اوراسرائیل کو قریب لانے کے لئے صرف بیرونی طاقتیں نہیں بلکہ کچھ اندرونی طاقتیں بھی سرگرم تھیں۔ اور یہ وہی طاقتیں تھیں جن کا ذکر آپ اوپر پڑھ چکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button