Column

مافیا پھر اقتدار میں ہوگا؟

سیدہ عنبرین
سال بھر سے کچھ زیادہ ہی بیت گیا افغانستان میں ڈالر نے ہلکی سی انگڑائی لی اور سر اوپر نکالا، وزیر خزانہ نے فوراً اس کا نوٹس لیا، یہ نوٹس اس قسم کا نہ تھا جو ہمارے بیشتر وزرائے اعظم اور وزیراعلیٰ ماضی میں لیتے نظر آتے ہیں، بلکہ یہ نوٹس بہت مختلف نوعیت کا تھا، اُنہوں نے حکومتی اور پرائیویٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے چیدہ چیدہ افراد کو بلایا اور ان سے وجوہات جاننے کے متعلق کوششیں نہ کیں کہ ڈالر کیوں اوپر کی طرف جارہا ہے۔ اُنہوں نے آسان اور سادہ ترین الفاظ میں حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو بھائی ڈالر کو بولو اتنا نہ سر اٹھائے کہ اس کا سر تو قلم ہوجائے، اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور لوگوں کا سر بھی قلم کرنا پڑ جائے، وزیرخزانہ کی زبان سے یہ الفاظ سن کر سب کے ہوش اڑ گئے، ان کے چہرے پیلے پڑ گئے، اگلا سورج طلوع ہوا تو ڈالر اور ڈالر مافیا اپنی اوقات میں آچکا تھا، جب سے آج تک اپنی اوقات نہیں بھولا، یاد دہانی کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی۔
گزشتہ ہفتے ایک افغان ماں اپنی بیٹی کے ہمراہ بازار سے گھر لوٹ رہی تھی، دونوں نے روایتی سیاہ برقعے اوڑھ رکھے تھے، دو آوارہ نوجوان ان کا تعاقب کر رہے اور گاہے بگاہے ان پر آوازے کس رہے تھے، دونوں ماں، بیٹی صبر اور برداشت سے کام لیتی رہیں، دونوں نوجوان اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے، سامنے سے ایک سپاہی آتا نظر آیا، ماں نے بڑھ کر اسے روکا اور تمام ماجرا بیان کیا، سپاہی خود بھی یہ سب دیکھ چکا تھا اور ان کی بیہودہ گفتگو کسی حد تک سن چکا تھا، اُس نے کندھے سے بندوق اتار کر سیدھی کرلی، دونوں نوجوانوں کو ساتھ لیکر قریبی پولیس سٹیشن لے گیا، مقدمہ درج ہوا، اسی روز تمام کارروائی مکمل ہوگئی اور سزا سنا دی گئی، سزا پر عمل درآمد کیلئے آئندہ روز بعد از نماز عصر وقت مقرر کر دیا گیا، ایک کھلے میدان میں عوام کا جم غفیر جمع تھا، ملزمان کو ہاتھ باندھ کر لایا گیا اور گھٹنوں کے بل زمین پر بٹھا دیا گیا، فرد جرم پڑھ کر سنائی گئی، ماں اور بیٹی نے تصدیق کی کہ واقعہ اسی طرح پیش آیا، پھر قاضی کا فیصلہ سنایا گیا، قاضی نے فیصلے پر عمل کرنے کا اشارہ کیا، دو بندوق بردار آگے بڑھے، فضا تڑ تڑ تڑ کی آواز سے گونج اُٹھی، گولیاں مجرموں کے جسموں سے پار ہوگئیں، ایک دائیں گرا، دوسرا بائیں گرا، چند سیکنڈ تڑپنے کے بعد دونوں بے سدھ ہوگئے، فضا انصاف زندہ باد کے نعروں سے گونج اُٹھی۔ میدان میں موجود جم غفیر نے مجرموں پر لعنت بھیجی، سب جدھر سے آئے تھے، اُدھر کو لوٹ گئے، مجرموں کی کوئی دلیل، کوئی اپیل نہ سنی گئی، مجرموں کے دفاع کیلئے کوئی وکیل آگے نہ بڑھا۔
افغانستان، قانون پر عمل درآمد اور انصاف مہیا کرنے میں خلیجی ریاستوں اور یورپ کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے، اُن کے یہاں چھوٹے مقدمے کا تصور نہیں، اسی طرح مجرم کو ضمانت پر رہائی کی گنجائش بھی موجود نہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ آج افغانستان میں جرم نہ ہونے کے برابر ہے، پھر بھی اگر کوئی واقعہ سامنے آجائے تو میڈیا کے ڈھنڈورے اور چسکے لینے سے قبل مجرم کیفر کردار تک پہنچ جاتا ہے، وہاں نمائشی انگلی ہلانے والا کوئی نہیں۔
پاکستان سے افغانستان اور افغانستان سے پاکستان کاروباری افراد تسلسل کے ساتھ آتے جاتے ہیں، ان میں مردوں کے ساتھ بعض اوقات اُن کی خواتین اور بچے بھی ہوتے ہیں، افغانستان سے بزنس ٹرپ سے واپس آنے والے ایک صاحب نی میڈیا پر اپنے تجربات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہ جونہی افغانستان کی سرحد کے اندر پہنچے، بڑی بڑی داڑھیوں اور پگڑیوں والے ان کی کار کی طرف لپکے، جب ان کی نظر خواتین اور بچوں پر پڑی تو پرے ہٹ گئے اور کار سوار مردوں کو بلا لیا، ان سے پوچھا کہ اگر ان کے پاس ایک سو ڈالر سے زیادہ رقم ہے تو وہ غیر قانونی ہے، وہ حوالے کردی جائے، پھر اُنہوں نے پوچھا بارڈر کراس کرتے ہوئے افغان حکام کا برتائو کیسا تھا، کسی نے انہیں تنگ تو نہیں کیا، کسی نے ان سے رشوت تو نہیں مانگی، تمام سوالوں کے جواب سن کر اُنہوں نے پوچھا کہ آپ لوگ کدھر کا ارادہ رکھتے ہیں، انہیں منزل کا بتایا گیا، وہ مطمئن ہوگئے، پھر اُنہوں نے پوچھا کہ آپ کے پاس کھانے پینے کا سامان کافی ہے، اگر راستے میں گاڑی خراب ہوجائے یا اس کا پٹرول ختم ہوجائے تو کیا کریں گے، کسی بھی سوال کا جواب نہ پاکر اُنہوں نے ہمیں کچھ موبائل نمبر نوٹ کرائے اور بتایا کہ ایک نمبر گورنر کابل کا ہے، دوسرا گورنر قندھار کا جبکہ تیسرا نمبر ایمرجنسی ایمبولینس کا ہے، کسی بھی مشکل میں ہوں تو اس نمبر پر کال کریں، آپ کو جس قسم کی مدد کی ضرورت ہوگی وہ جلد از جلد آپ تک پہنچے گی۔
افغانستان کا سفر کرنے والے خاندان نے بتایا کہ راستے میں متعدد چیک پوسٹیں تھیں، ہمیں روک کر چیک کیا جاتا رہا لیکن نہایت عزت و احترام کے ساتھ، ہمیں دوران سفر کوئی مشکل پیش نہ آئی، کابل پہنچے تو سوچا گورنر کابل سے ملنا چاہیے اور اطمینان بخش سفر اور صورتحال پر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اسی خیال سے ان کے موبائل نمبر پر فون کیا تو اُنہوں نے خندہ پیشانی سے جواب دیا کہ اسی وقت آئیں، اُنہوں نے اپنے دفتر کا پتہ سمجھا دیا۔ وہاں پہنچے تو ان جیسے حلیے والے درجنوں آتے جاتے نظر آئے، گورنر صاحب کا پوچھا تو بتایا گیا کہ سامنے مسجد میں موجود ہیں اور آپ کے منتظر ہیں۔ مسجد میں داخل ہوئے تو چٹائی پر چادر اوڑھے گورنر صاحب لیٹے تھے، ہمیں دیکھ کر اُٹھ بیٹھے، تپاک سے ملے اور اپنے سٹاف سے کہا مہمان آئے ہیں، ان کے لئے چائے لائو، چند منٹوں میں چائے آگئی، یہ صرف چائے تھی، کوئی لوازمات ساتھ نہ تھے۔ اُنہوں نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا ہماری حکومت غریب ہے، ہم اس سے زیادہ آپ کی خدمت نہیں کر سکتے، چائے ختم ہوئی تو اُنہوں نے پوچھا کیسے آنا ہوا، ہمارے لائق کوئی خدمت، کوئی کام، کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بتائیں، مسافر خاندان نے ان کا شکریہ ادا کیا، اُن کے نظام حکومت اور معاملات پر اُن کی گرفت کی تعریف کی، تو بولے اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ ہماری توفیق اور استقامت میں اضافہ کر دے، اس نظام کا اپنے ملک میں جاری اور نافذ نظام کا مقابلہ کر لیجئے، کیا ہم انسانوں کی بستی میں رہ رہے ہیں، کیا ہم سے انسانوں والا سلوک کیا جا رہا ہے، ہمیں انسان سمجھا بھی جاتا ہے یا نہیں، کیا ہم ہر پانچ برس بعد کرپٹ حکمران اشرافیہ کے قدموں تلے کچلے جانے کیلئے پیدا ہوئے ہیں۔ تیاریاں تو کچلنے کی جارہی ہیں، نام جمہوریت کا ہوگا، مافیا پھر اقتدار میں ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button