گند کیسے صاف ہوگا

محمد عباس عزیز
پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے، اس سے لوگو ں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے، بجلی، پٹرول اور دیگر چیزوں کے نرخ آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں۔ عوام اب آرمی چیف کی طرف دیکھ رہے ہیں، کیونکہ معاملہ یہاں پہنچ گیا ہے کہ یہ نگران حکومت کے بس کا روگ نہیں رہا۔ پاکستان میں جو گند1947ء سے لے کر آج تک جمع ہوگیا ہے، اس میں ہم کسی ایک جماعت یا کسی آمر کی حکومت کو ذمہ دار نہیں کہہ سکتے، بلکہ بقول شاعر:
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں تھے برق و شرر سے ملے ہوئے
اگر یہ باغبان ایمان دار ہوتے تو آج پاکستان کا یہ حشر نہ ہوتا، آج ہم تنہائی کا شکار نہ ہوتے لیکن اگر ان باغبانو ں کا علاج نہ ہوا تو خدا نہ کرے پاکستان کا بہت نقصان ہوجائے گا۔ آج عوام جن مسائل کا شکار ہیں، ان کو حل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم سب اپنی نیتیں ٹھیک کر لیں کیونکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر آج اشرافیہ، تاجر، بیوروکریٹ، عدلیہ، انتظامیہ، ادارے، سیاسی جماعتیں سب اپنی سوچ کو مثبت بنا لیں تو سب کچھ درست ہو سکتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سب کیسے ہوگا کیونکہ کرپٹ مافیا ہر جگہ موجود ہے، ہر دفتر میں، ہر طبقہ میں۔ بات پھر وہیں آ کرر کتی ہے کہ ہمارے اندر خرابی ہے۔ شیر شاہ سوری کی حکومت جس میں پاکستان اور ہندوستان دونوں ملک شامل تھے، مغلوں کی تمام حکومتوں سے بہتر تھی، حالانکہ مغلوں کی حکومتیں کئی سو سال پر پر مشتمل تھیں لیکن شیر شاہ سوری کی نیت اور قانون کی حکمرانی نے چار سال میں وہ کام کئے جو مغل بادشاہ کئی سو سال میں نہ کر سکے۔ آج پاکستان کے عوام مہنگائی کی چکی میں جس طرح پس رہے ہیں اس کی مثال پوری پاکستانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ قیام پاکستان کے بعد سے کسی بھی حکومت نے ایمانداری سے ڈیلیور نہیں کیا اور نہ آج کیا جا رہا ہے۔ آج اگر ادارے کہہ رہے ہیں کہ چھ ارب کی بجلی چوری ہو رہی ہے یا پٹرول سمگل ہو کر پاکستان آرہاہے تو یہ کون ہیں جو ایسا کر رہے ہیں۔ کیا پی ڈی ایم حکومت کو نہیں معلوم تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے، وہ عیاشیاں کرکے چلے گئے، اس سے پہلے عمران خان کی حکومت کو بھی سب کچھ معلوم تھا، اب تک جتنی بھی حکومتیں آئی ہیں سب کے علم میں تھا، کرپشن ہمارے جسموں میں کینسر کی طرح رچ گئی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس کینسر کو سرجری کرکے ختم کیا جائے، ورنہ موت سامنے کھڑی نظر آرہی ہے، صورتحال یہ بن چکی ہے کہ یا اشرافیہ کو بچا لو یا ملک کو بچا لو۔ جناب نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ صاحب اور آرمی چیف جناب محترم سید عاصم منیر صاحب سے درخواست ہے کہ پاکستان کو بچانا بہت ضروری ہے لہذا سسٹم کے اندر رہتے ہوئے تمام وہ اقدامات کئے جائیں جس سے مافیاز، کرپٹ عناصر عوام کے سامنے آ جائیں۔ افغانستان، بھارت اور ایران کے بارڈر پر فوج اور رینجرز کی مدد سے سیکیورٹی سخت کی جائے تاکہ سمگلرز اور غیر قانونی تجارت کو روکا جائے، جس کی وجہ سے ملک کو نقصان ہو رہا ہے ۔ بجلی اور پٹرول کی سبسڈی کو مکمل ختم کیا جائے۔ تمام افسروں، ججوں، جرنیلوں اور دیگر اداروں کے سربراہوں، جو بجلی کے یونٹ فری استعمال کرتے ہیں، سے یہ سہولت واپس لی جائے۔ اس کا فائدہ پاکستان کے عوام کو حاصل ہو۔ محترم آرمی چیف صاحب آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ کرپشن کہاں کہاں ہوتی ہے، آپ جب عمران خان کے دور میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو آپ نے عمران خان کو بتایا تھا کہ آپ کے گھر میں ہی کرپشن ہو رہی ہے تو وہ آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر آپ سے ناراض ہو گئے تھے، کوئی سیاسی جماعت، مافیا ناراض ہوتا ہے تو ہو جائے، آپ ایک دفعہ شیر شاہ سوری بن جائیں اور ملک کو ٹریک پر لے آئیں اور جن لوگوں نے بھی ملک کے ساتھ غداری کی ہے، سسٹم کو ڈی ریل کیا ہے، تمام کو کٹہرے میں لا کر سزا دی جائے۔ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تجارت کو قانونی طور پر رائج کیا جائے تاکہ سمگلرز کی حوصلہ شکنی ہو۔ لوگوں کو مہنگائی، بجلی اور پٹرول کی بڑھتی قیمتوں سے نجات دلائی جائے۔ جبکہ آخر میں گزارش کریں گے کہ الیکشن کی جو تاریخ الیکشن کمیشن انائونس کرے اس کو یقینی بنایا جائے، انتخابات شفاف ہونے چاہئیں، اور جو بھی نئی حکومت آئے اس کو اپنی مدت پوری کرنے دی جائے۔