Column

پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں نورا کشتی

رفیع صحرائی
آج کل بلاول بھٹو زرداری اینگری ینگ مین بنے ہوئے ہیں۔ وہ آئے روز ن لیگ پر تاک تاک کر نشانے لگا رہے ہیں۔ تازہ ترین بیان میں انہوں نے فرمایا ہے کہ عمران خان کو جیل بھیج کر ملکی مسائل حل نہیں ہوئے۔ قبل ازیں وہ متعدد بار الیکشن کے فوری انعقاد کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ بلاول بھٹو کو یہ بھی شکوہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو لیول پلینگ فیلڈ سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ان کا اشارہ فواد حسن فواد کو نگران وفاقی کابینہ میں بطور وزیر لینے کی طرف تھا۔ وہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وفاقی اور پنجاب حکومت دراصل ن لیگ کے کنٹرول میں اور شہباز حکومت کا تسلسل ہیں۔
بلاول بھٹو کے تابڑ توڑ حملوں کے جواب میں مسلم لیگ ن کی ٹاپ کلاس لیڈر شپ خاموش ہے۔ معروف صحافی عبدالمالک کے بلاول بھٹو کے جارحانہ رویّے پر ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ ’’ بلاول میرے بیٹوں جیسا ہے‘‘۔ دوسری طرف آصف علی زرداری نرم پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ زرداری بہت زیرک سیاستدان ہیں۔ انہیں ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ بلاول سخت بیانات کے ذریعے دبائو بڑھانا اور زرداری اس کا فائدہ اٹھا کر مفاہمت اور بارگیننگ کرنا چاہتے ہیں۔
دیکھا جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب میں بہت کمزور پوزیشن میں ہے۔ اس کا ادراک لیڈرشپ کو بھی ہے مگر میثاقِ جمہوریت کی وجہ سے فی الحال اسی کمزور پوزیشن پر سیاست کرنا اس کی مجبوری ہے۔ گو تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان جوتیوں میں دال بٹنا شروع ہو گئی ہے۔ اقتدار میں رہ کر شیر و شکر ہونے والی دونوں جماعتیں ایک دوسری کے مقابل آ گئی ہیں۔ لیکن واقفانِ حال جانتے ہیں کہ دونوں پارٹیوں میں نکاح کا رشتہ قائم ہے۔ علیحدگی بھی نہیں ہوئی۔ صرف عوام کو طلاق کا تاثر دیا جا رہا ہے تاکہ الیکشن میں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کر کے آئندہ بننے والی حکومت میں اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کیا جا سکے۔
1988 سے لے کر 2013 تک پیپلز پارٹی اور ن لیگ ہی ایک دوسرے کی بڑی سیاسی حریف رہی ہیں۔ 2018میں ہیوی ویٹ بن کر آنے والے عمران خان نے اپنی بہتر حکمتِ عملی سے عوام کی نبضوں پر ہاتھ رکھ کر سیاست کی ہے۔ وہ اپنی حکومت کے آخری دنوں میں انتہائی غیرمقبول ہو چکے تھے۔ ان کے پارٹی ورکرز تک ان سے مایوس اور دل گرفتہ تھے مگر اقتدار سے نکلنا ان کے لیے آکسیجن ثابت ہوا اور انہوں نے عوام کی نفسیات کو مدِنظر رکھتے ہوئے نت نئے بیانیے بنا کر اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت زیادہ طاقت کے ساتھ حاصل کر لی۔ مثل مشہور ہے ’’ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے‘‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا مشترکہ سیاسی حریف عمران خان ہے جو 9مئی جیسے بڑے ایڈونچر کے باوجود عوام میں ان دونوں پارٹیوں سے زیادہ مقبول ہے۔ رہی سہی کسر پی ڈی ایم کی 16مہینوں کی حکومت نے عوام کی زندگیوں میں زہر گھول کر پوری کر دی۔ اسی لیے اب مسلم لیگ ن نے الیکشن سے بہت پہلے میاں نواز شریف کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
میاں نواز شریف کی آمد سے جہاں پی ٹی آئی پریشان ہے وہیں پر پیپلز پارٹی میں بھی تشویش پائی جا رہی ہے۔ جونہی ان کی آمد کی تاریخ دی گئی پیپلز پارٹی کی ایک اہم رہنما محترمہ شہلا رضا نے ٹویٹ داغ دی کہ ’’ عوام اور اپنے قریبی ساتھیوں کو دو بار مشکلات میں چھوڑ کر دوسرے ملک جانے والے! آ تو رہے ہو، یہ تو بتائو پلیٹ لیٹس کتنے ہیں؟‘‘۔ اس پر مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے جواب دیا کہ ’’ باجی! آپ کے پلیٹ لیٹس کیوں کم ہو رہے ہیں؟۔ دل کیوں گھبرا رہا ہے؟۔ چکر کیوں آ رہے ہیں؟ ان کے آنے کا سن کر۔ اللّٰہ پاک شفا دے‘‘۔ ادھر مسلم لیگ ن کے ایک اور رہنما حنیف عباسی نے کہہ دیا کہ ’’ بھٹو زندہ نہیں ہے، بھٹو مر چکا ہے۔ ہم نے دہشت گردی ختم کی۔ بے روزگاری کا خاتمہ کیا۔ موٹر ویز بنائیں جبکہ ان کی کارکردگی صفر بٹا صفر ہے۔ میں کہتا ہوں بھٹو زندہ نہیں ہے۔ ان کے نام کو کیش کرانے کی بجائے پیپلز پارٹی والے اپنی کارکردگی بتائیں‘‘۔ حنیف عباسی کے اس بیان سے پیپلز پارٹی کی صفوں میں بھونچال آ گیا۔ شہلا رضا، شازیہ مری اور حسن مرتضیٰ سمیت کئی دوسرے لیڈر بھی میدان میں کود پڑے۔ بھلے حنیف عباسی نے شہلا رضا صاحبہ کے ٹویٹ کے ردِعمل میں یہ بیان دیا تھا مگر پارٹی لیڈر شپ کی ہدایت پر انہیں اپنا بیان واپس لے کر بھٹو کو ’’ زندہ‘‘ ماننا پڑا۔ لیکن بیان بازی کا سلسلہ ٹھنڈا نہیں پڑا۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے خود بلاول بھٹو زرداری بیان بازی کے ذریعے ن لیگ پر حملے کر رہے ہیں۔ ان کا عمران خان کے حق میں تازہ بیان جہاں ن لیگ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف ہے وہیں پر وہ عمران خان کے ووٹرز اور سپورٹرز کی ہمدردیاں بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی لفظی گولہ باری کا ویسا ہی جواب چاہتے ہیں تاکہ ن لیگ سے ( بظاہر) دشمنی کی مطلوبہ فضا بن سکے۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کو آئندہ الیکشن سے دور رکھا جائے گا۔ اس لیے ن لیگ مخالف ووٹ بلاول بھٹو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے بھی پیپلز پارٹی کے لیے مشکل وقت چل رہا ہے۔ اسے پنجاب میں اپنی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔ آصف زرداری چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کے آئندہ الیکشن میں قومی اسمبلی تک رسائی میں مدد کرے۔ وہ سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، قمر زمان کائرہ سمیت چھ قومی اسمبلی کی نشستیں ن لیگ سے مانگ رہے ہیں۔ دوسری طرف ن لیگ ان کی اس تجویز پر فی الحال متفق نظر نہیں آتی۔ اندرون سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے خلاف نئے اتحاد بن رہے ہیں جبکہ کراچی میں ایم کیو ایم کے لیے فضا سازگار بن رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے کافی مشکلات نظر آ رہی ہیں۔ اسی لیے ایک سٹریٹجی کے تحت مظلوم بن کر اور ن لیگ مخالف بیانیہ کے ذریعے مخالف ووٹ اپنی جھولی میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی ٹاپ لیڈرشپ پیپلز پارٹی کو کوئی سخت جواب دینے سے مسلسل گریزاں ہے۔
ان تمام حالات کے باوجود ایک بات تو طے ہے کہ آئندہ الیکشن کے نتیجے میں میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم پاکستان بننے جا رہے ہیں جبکہ الیکشن میں مسلم لیگ ن پر تابڑ توڑ حملے کرنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی مرکز میں ن لیگ کی سب سے بڑی اتحادی ہو گی۔ فی الحال ان دونوں پارٹیوں کے لیے اس کے علاوہ چارہ بھی نہیں ہے۔ سامنے بڑا پہلوان ہے۔ جب تک عمران خان سیاسی میدان میں موجود ہے یہ دونوں پارٹیاں ایک دوسری کی ضرورت بنی رہیں گی۔ جب وہ میدان میں نہیں ہوں گے تو دونوں کی ضرورت بھی بدل جائے گی۔ فی الحال ماضی اور مستقبل کے اتحادیوں کے درمیان ’’ نورا کشتی‘‘ کا دور جاری ہے جس میں آگے چل کر مزید شدت آئے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button