Column

سیاسی میچ کا نتیجہ

سیدہ عنبرین
ہفتہ عشرہ پہلے ملک کی نصف آبادی سر جوڑے بیٹھے تھی کہ کرکٹ کے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان فتح کے بعد ٹرافی حاصل کر پائے گا یا نہیں۔ اس کا مقابلہ فائنل میں بھارت کے ساتھ ہوگا یا کسی اور ملک کے ساتھ، بارشوں نے میچ کا نتیجہ برآمد نہ ہونے دیا تو کیا ہو گا، یہ ٹورنامنٹ اپنے انجام کو پہنچا، شکست پاکستان کا مقدر بنی، دنیا کی نمبر ون ٹیم کس طرح اچانک مقابلوں سے باہر ہو جاتی ہے اب راز نہیں رہا۔ پوری ٹیم کس طرح فلاپ ہوتی ہے اس کے بھی کچھ اپنے آداب ہوتے ہیں لیکن بھارت کے مقابلے میں سری لنکا نے فقط پچاس رنز پر ڈھیر ہونے کے بعد بے ادبی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں، سری لنکا کے بس میں ہوتا تو وہ شاید ایسا نہ کرتا، سب کچھ کسی اور کے بس میں تھا جس کے سامنے سب بے بس ہوجاتے ہیں۔ سب کو بے بس کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی، ایشیا کپ کے آرگنائزر کی اولین خواہش تھی کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں فائنل میں پہنچیں تا کہ ٹکٹوں کے حصول کے لئے کھڑکی توڑ ہفتہ نظر آئے۔ ایڈورٹائزر اور سپانسر آخری لمحوں میں ٹوٹ پڑیں اور سب مالا مال ہو جائیں۔ ان کی بد قسمتی ایسا نہ ہو سکا، پس اب نقصان پورا کرنے کیلئے اور فائنل میں اپنے اہداف حاصل کرنے کیلئے خوب خوب کوششیں کی گئیں لیکن تمام تر جدو جہد کے بعد اہداف پورے ہوتے نظر نہ آتے تھے پس آخری حربہ وہی تھا جیسے آزمایا گیا، صبح شروع ہوا تو سری لنکا کا ریٹ برا نہ تھا لیکن میچ کو اس طرح پلٹا گیا کہ دیکھنے والے کنگال اور کھلانے والے مالا مال ہو گئے۔ ہمیشہ کی طرح اس فتح اور شکست کو بھی کرکٹ بائی چانس کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے، پاکستان تو فائنل میں نہ پہنچ سکا، اگر کبھی فائنل میں پہنچ بھی جائے تو ایک طبقہ دعائیں مانگنا شروع ہو جاتا ہے کہ باری تعالیٰ ہمیں نے ورلڈ کپ سے محروم رکھ، ہم کسی دوسرے ورلڈ کپ کا بوجھ اٹھانے کی اسطاعت نہیں رکھتے، جبکہ ایک دوسرا طبقہ جیت کی دعائیں مانگتا ہے کہ 1992ء کا ورلڈ کپ پرانا ہو گیا، اب کوئی نیا کپ آئے تو نیا دھندا شروع ہو، اس طبقے کو صرف اپنے مال سے غرض ہوتی ہے، وہ ہار پر پیسہ لگا کر بھی جیت جاتے ہیں، جبکہ جیت تو پھر جیت ہوتی ہے۔ اب قوم کو ایک نئے درد سر میں متبلا کیا گیا ہے وہ یہ کہ جناب نواز شریف وطن واپس آئیں گے یا نہیں اور اگر آگئے تو وزیر اعظم بنیں گے یا نہیں، جو ہوگا ڈیل کے سوا کچھ نہ ہو گا، اسی سے ڈھیل ملی گی، اطلاعاًعرض ہے کہ میدان سیاست میں موجود کھلاڑیوں کے بس میں کچھ نہیں، سب بے بس ہیں، ہر ایک کے کارناموں پر مشتمل فائل موجود ہے، سب کے سب اپنے ماضی کی کارکردگی کی بیڑیوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن جان اتنی آسانی سے نہیں چھوٹے گی۔ بہت پاپڑ بیلنا پڑیں گے۔ شریف خاندان ہو یا زرداری خاندان، خان ہو یا چودھری سب کے سب ہر قسم کے پاپڑ بیل کر نیب کے بیلنے سے نکلنا چاہتے ہیں، سیاسی مشترکہ مفادات کونسل نے تمام تر اختلافات کے باوجود بہ یک جنبش قلم نیب قوانین کے نیچے ادھیڑ دیئے تھے لیکن چیف جسٹس بندیال جاتے جاتے ایسی رفوگری کر گئے ہیں کہ سب سر پکڑ کر بیٹھے ہیں، ایسے میں ملک کے اندر رہنے والے باہر جانے کی سوچ رہے ہیں، باہر بسنے والے واپسی کی تاریخیں تو دے رہے ہیں لیکن تیل اور تیل کی دھار پر نظر رکھے ہوئے ہیں، واضع اور دو ٹوک گارنٹی کے بغیر شاید نہ آئیں، اگر آ بھی جائیں تو اس سے کیا فرق پڑے گا، کیا زندگی میں پہلی مرتبہ گئے اور اب پہلی مرتبہ آرہے ہیں، آنیاں جانیاں قوم نے متعدد بار دیکھی ہیں، اس مرتبہ الیکشن ماضی کے انتخابات سے بہت مختلف ہونگے۔ پہلے تو آسان سا نتیجہ تھا، چھوٹا بھائی اور بڑا بھائی دونوں مل کے حکومت کرتے تھے، ایک اقتدار میں تو دوسرا اپوزیشن میں بیٹھ کر فرینڈلی اپوزیشن کیا کرتا تھا، کام کسی کے نہ رکتے تھے، تمام بل تمام تر مخالفت کے باوجود ہمیشہ پاس ہو جاتے تھے، حتیٰ کہ ایک عجب نظارہ دیکھا، جنرل باجوہ الیکشن چاہتے تھے جبکہ صبح شام فوج اور اس کے سربراہوں کے خلاف زبان درازی میں سبقت لے جانے کے خواہشمند انہیں اپنی وفاداریوں کا یقین دلانے کیلئے بڑھ چڑھ کر اظہار محبت کرتے دیکھے گئے۔ پھر تینوں بڑی جماعتوں اور انکے بغل بچوں نے مل کر انہیں ایکسٹینشن دینے کیلئے صدق دل سے قانون میں ترمیم کی، ایک کے سوا سب نے اس نیکی کا صلہ پایا۔
الیکشن کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ووٹرز کی تعداد پونے تیرہ کروڑ قریب ہے، خواتین ووٹرز پونے چھ کروڑ کے لگ بھگ، مرد ووٹرز بھی اتنے ہی ہیں، 2018ء میں ووٹرز کی تعداد پونے گیارہ کروڑ تھی، قریباً پونے تین کروڑ ووٹرز پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیں گے، ان میں دو کروڑ نیا ووٹر وہ ہے، جس کا ملک کی تعمیر و ترقی میں کوئی کردار نہیں، یہ ان پڑھوں اور بے روزگاروں کے جھنڈ ہیں، جو چوکوں، چوراہوں اور تھڑوں پر سیل فون لیے آپ کو دنیا و مافیا سے بے خبر بیٹھے نظر آئیں گے۔ جسے دنیا کی کسی بہت بڑی ایجاد میں اپنا حصہ ڈال رہے ہوں، اس نسل کے پاس عقل و فہم کی کمی ہے، یہ نعروں اور ڈھول ڈھمکوں، میلوں ٹھیلوں میں خوش رہنے و الے لوگ ہیں۔ میلے ٹھیلے چاہے چند روزہ ہوں، پھر طویل اندھیری رات ہو، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں، دن کو سونے اور راتوں کو جاگنے والی نسل کو سبز باغ دکھا کر ان سے جہاں چاہیں مہر لگوا لیں۔ کوئی بڑا کام کرانا ہو تو ان کی قیمت ایک سیل فون سیٹ، کوئی بڑے سے بڑا جرم کرانا ہو، کہیں آگ لگانا ہو، املاک تباہ کرانی ہو، جب بھی یہ آپ کو پیش پیش نظر آئیں گے۔ ان کا ووٹ ملک کو تباہ کرتا چلا آیا ہے، آئندہ بھی کریگا۔ بندوں کر گننے والا نظام مختلف مافیا کو سوٹ کرتا ہے ملک کو نہیں، جب تک ایسا نظام انتخاب نہیں آتا جس میں بندوں کو تولا جاسکے، ملک میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ اسی طرح اعلیٰ ترین عہدے کے انتخاب کیلئے بھی قواعد و ضوابط پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ورنہ نواز شریف چوتھی مرتبہ بھی وزیر اعظم بن جائیں وہ وہی کچھ کرینگے جو اس سے پہلے تین مرتبہ کے اقتدار میں کر چکے ہیں اور دنیا دیکھ چکی ہے۔ فائنل سیاسی میچ میں مضبوط ٹیم پچاس سیٹیں حاصل کر کے آئوٹ ہو گی جبکہ کمزور اور ناپسندیدہ ٹیم اقتدار میں ہوگی۔ اس حوالے سے انتظامات واضع نظر آ رہے ہیں سیاسی میچ کا نتیجہ یوں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button