Column

بے وقوفی میں بھی عقلمندی ہے

رفیع صحرائی
عقل بہت بڑی نعمت ہے۔ اتنی بڑی کہ گزرے وقتوں میں اس کا موازنہ بھینس سے کیا جاتا تھا اور اکثر یہ محاورہ سننے میں آتا۔
’’ عقل بڑی کہ بھینس‘‘
یہ محاورہ عموماً اس وقت سننے میں آتا جب کسی سے کوئی بے وقوفوں والا کام یا حرکت سرزد ہو جاتی تھی۔
مثبت انداز میں عقل کا بروقت استعمال کیا جائے تو بندہ بہت سے مسائل احسن انداز سے سلجھا لیتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ مسائل پیدا ہی نہیں ہونے دیتا۔ یہی عقل جب منفی کاموں کی انجام دہی کے لئے استعمال کی جائے تو بندہ شیطانی راستے کا مسافر ہو جاتا ہے۔ پھر اس کا مطمع نظر محض اپنے نفع یا مذموم مقصد کی تکمیل ہی بن جاتا ہے۔ دوسروں کی بھلائی سے اسے کوئی غرض نہیں رہ جاتی۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے ایک روپے کے فائدے کی خاطر بندہ سامنے والے کے سو روپے کا نقصان کر دیتا ہے۔
ہم میں سے کئی لوگ بہت زیادہ سیانے بھی ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی سیانف پر ناز ہوتا ہے اور اس کا اظہار برملا اور فخریہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگ آپ کو کبھی بھی بحث میں جیتنے نہیں دیں گے۔ انہیں خبط ہوتا ہے کہ عقل مندی میں خود کو دوسروں سے برتر ثابت کریں۔ اس کے لئے ان کے پاس دلیلوں کے انبار ہوتے ہیں۔ سامنے والے کو لاجواب کرنے کے لئے وہ ہر قسم کا حربہ استعمال کرتے ہیں اور آخر کار فتح یاب ٹھہرتے ہیں۔
بے شک ایسے لوگ بحث جیت جاتے ہیں مگر بہت کچھ ہار جاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ اس رشتے کو ہارتے ہیں جس کی سبکی کر کے بحث میں جیتتے ہیں۔ جائز ناجائز طریقے سے جیتنے کی خواہش میں وہ اپنے عزیز دوستوں کو ہار دیتے ہیں۔ وہ دوسروں کی طرف سے دیئے جانے والے احترام اور عزت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ ہمیشہ جیتنے کی خواہش انہیں ضدی اور ہٹ دھرم بنا دیتی ہے جو بجائے خود شخصی کمزوریاں بلکہ بیماریاں ہیں۔ اپنے آپ کو ہمیشہ سیانا ثابت کرنے کا جنون ہر موقع پر مناسب نہیں ہوتا۔
ایک دفعہ ایک مسلمان، ایک ہندو اور ایک سکھ کو موت کی سزا سنائی گئی۔ مقررہ دن انہیں کھلے میدان میں لے جایا گیا۔ سزا پر عمل کا طریقہ یہ تھا کہ مجرم کو زمین پر لٹا دیا جاتا اس کی اوپر ایک چرخی پر رسا لپٹا ہوتا جس کے سرے پر بھاری پتھر بندھا ہوتا۔ چرخی کو گھما کر کھلا چھوڑ دیا جاتا۔ پتھر تیزی سے نیچے آتا اور مجرم کا سر کچل دیتا۔ سب سے پہلے مسلمان کو ہاتھ پائوں باندھ کر مقررہ جگہ پر لٹا دیا گیا۔ چرخی کو کھلا چھوڑا گیا تو رسے سے بندھا پتھر تیزی سے نیچے آیا مگر مسلمان کے سر سے ایک فٹ اوپر آ کر اچانک رک گیا۔ موقع پر موجود تمام لوگ اس معجزے پر حیران رہ گئے۔ انہوں نے سوچا کہ ممکن ہے یہ مسلمان بے گناہ ہو اور اسے سزا دینے کا فیصلہ غلط ہو۔ سب نے آپس میں مشورہ کیا اور اسے بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا۔ اس کے بعد ہندو کی باری آ گئی۔ جب اس کی سزا پر عمل ہونے لگا تو ایک مرتبہ پھر وہی ہوا کہ اس کے سر سے اوپر ایک فٹ کے فاصلے پر پہنچ کر پتھر رک گیا۔ ہندو کو بھی بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا گیا۔ اب سکھ کی باری آ گئی۔ اسے نیچے لٹاتے ہوئے ایک سرکاری اہل کار بولا
’’ دوسرے دو تو بچ گئے، اب دیکھو تمہاری قسمت میں کیا لکھا ہے؟‘‘
سکھ اونچی آواز میں بولا
’’ اوئے بے وقوفو! رسا تو ٹھیک کر لو، ہر دفعہ اس میں لگی ہوئی گانٹھ چرخی میں پھنس جاتی ہے اور پتھر راستے میں ہی رک جاتا ہے‘‘
اگر اس سیانے سکھ کا سر پتھر سے کچلا گیا تھا تو اس میں قصور سراسر اس کی عقل کے بروقت استعمال کا تھا۔ جبکہ مسلمان اور ہندو وقتی طور پر بیوقوف اور انجان بن کر بچ گئے۔
ایک اور واقعہ بھی پڑھتے جائیے
ہوٹل پر بیٹھے ایک شخص نے دوسرے سے کہا یہ ہوٹل پر کام کرنے والا بچہ اتنا بیوقوف ہے کی اسے یہی نہیں پتا پانچ سو زیادہ ہوتے ہیں یا پچاس۔ میں پانچ سو اور 50کا نوٹ میز رکھوں گا اور کہوں گا کہ بڑا نوٹ اٹھا لے تو یہ پچاس کا نوٹ ہی اٹھائے گا۔ اس نے بچے کو آواز دی اور دو نوٹ سامنے رکھتے ہوئے بولا، ’’ ان میں سے زیادہ پیسوں والا نوٹ اٹھا لو‘‘۔ بچے نے پچاس کا نوٹ اٹھا لیا۔ دونوں نے قہقہہ لگایا اور بچہ واپس اپنے کام میں لگ گیا۔
پاس بیٹھے شخص نے ان دونوں کے جانے کے بعد بچے کو بلایا اور پوچھا، ’’ اتنے بڑے ہو گئے ہو۔ تمہیں پچاس اور پانچ سو کے نوٹ میں فرق کا نہیں پتا‘‘۔ یہ سن کر بچہ مسکرایا اور بولا ’’ یہ آدمی اکثر کسی نا کسی دوست کو میری بے وقوفی دکھا کر انجوائے کرنے کے لیے یہ کام کرتا ہے اور میں پچاس کا نوٹ اٹھا لیتا ہوں۔ وہ خوش ہو جاتے ہیں اور مجھے پچاس روپے مل جاتے ہیں۔ جس دن میں نے پانچ سو اٹھا لیا اسی دن یہ کھیل بھی ختم ہو جائے گا اور ساتھ ہی میری آمدنی بھی‘‘۔
زندگی بھی اس کھیل کی طرح ہی ہے ہر جگہ سمجھدار بننے کی ضرورت نہیں ہوتی جہاں سمجھدار بننے سے اپنی ہی خوشیاں متاثر ہوتی ہوں وہاں بیوقوف بن جانا ہی سمجھداری ہے۔

جواب دیں

Back to top button