حج نہیں ہجرت فرض ہے

محمد نور الہدی
ہمارے ایک دوست آج کل ہر ملنے والے فرد بالخصوص نوجوانوں کو پاکستان چھوڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے باوجود ان کا موقف ہے کہ پاکستان رہنے کے قابل نہیں رہا۔ جس حساب سے آئی ایم ایف نے ملک کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، اس کے چنگل سے نکلنا اب کسی صاحبِ بصیرت حکمران کے بس میں بھی نہیں رہا ۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے یہاں زندگی مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہر گزرتے دِن ہم دوسرے ممالک کے محتاج ہو رہے ہیں۔ مستقبل قریب میں پاکستان تیسری دنیا کے بھی ان ممالک میں شمار ہونے والا ہے جو آئی ایم ایف کے بغیر کسی صورت جینے کے قابل نہیں رہیں گے۔ مذکورہ دوست ہر ایک کو کہتے ہیں کہ موقع ملے تو بیرون ملک منتقل ہر کر نئی زندگی کا آغاز کرے۔ میں نے ایک مرتبہ انہیں ٹوکا، اور ہلکا سا احتجاج کیا، تو کہنے لگے کہ حُب الوطنی کے درس بہت دی لئے اور بہت سن لئے۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اب استطاعت ہونے پر حج نہیں، ہجرت فرض ہے۔ کیونکہ بات حب الوطنی سے آگے نکل کر حقیقت پسندی کی جانب بڑھ چکی ہے۔ گزشتہ دنوں میں صحافیوں، ادیبوں اور ایڈیٹرز کے پلیٹ فارم ’ پہچان‘ کی ایک ماہانہ نشست میں شریک تھا، جس میں ایک صوبائی وزیر نے بتایا کہ وہ ایک ہسپتال کے دورہ پر تھے۔ تیمارداری کرتے ہوئے ایک بوڑھی اماں کی بیٹی سے انہوں نے استفسار کیا تو جواب ملا کہ خاتون بیوہ ہے اور گھروں کے کام کاج کرتی ہے۔ اس کا بجلی کا بل 30ہزار روپے آیا ہے جبکہ ماہانہ آمدن محض 17ہزار روپے ہے۔ اسی پریشانی میں اسے ہارٹ اٹیک ہوا اور یہ ہسپتال پہنچ گئی۔ یہ میرے ملک میں ایک عام آدمی کی زندگی ہے۔ ’ پہچان‘ ہی کی ایک نشست میں قاسم علی شاہ ملک چھوڑنے والے نوجوانوں کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ نوجوان نسل اپنا مستقبل باہر دیکھ رہی ہے جبکہ پاکستان میں وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ اسی لئے وہ غلط طریقے سے بھی بیرون ملک جانے کا خطرہ مول لینے سے نہیں کتراتے۔ پاکستان کا برین ڈرین ہو رہا ہے۔ سالانہ لاکھوں افراد بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں اور ارباب اختیار کو اس کا احساس تک نہیں۔ یہ کس قدر تلخ اعداد و شمار ہیں کہ رواں سال میں اب تک 5لاکھ کے لگ بھگ افراد اپنے بہتر مستقبل کی خاطر بیرون ممالک منتقل ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سال یہ تعداد 8لاکھ سے زائد ریکارڈ کی گئی تھی۔ برطانیہ، امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ملائشیا، ترکی سمیت دیگر ممالک کی آغوش میں پناہ لینے والے ان پاکستانیوں میں مزدوروں، ڈرائیوروں، انجینئرز، ڈاکٹرز سمیت دیگر اعلیٰ تعلیم یافتہ کے علاوہ ہنر مند افراد بھی شامل ہیں۔ اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ دنیا کے تین خطوں، مشرق وسطیٰ، یورپ اور شمالی امریکہ میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہو چکی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان کیلئے پاکستان میں مواقع موجود نہیں، مواقع دستیاب ہوتے ہوئے بھی انہیں اپنے مستقبل کا خوف و خطرہ رہتا تھا۔ ایسے برے حالات ہو چکے ہیں کہ ہر طرف مایوسی ہے۔ روز ’ بجلی و پٹرول گردی‘ ہوتی ہے۔ ایسے میں لوگ بیرون ملک منتقل ہونے کی کوشش نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ پاکستان کو خیر باد کہنے والوں کی وجہ سے ملک میں جو خلا پیدا ہو رہا ہے، اس کا احساس کرنے کو کوئی تیار ہی نہیں ہے۔ بجلی، پٹرول اور ٹیکس گردی کے خلاف عوامی مطالبہ پہنچانے اور ’ نظرثانی‘ کی درخواست پر نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو آئی ایم کی جانب سے ’ کڑاڑا جواب‘ مل چکا ہے۔ ممتاز بلاگر یوسف سراج نے ان حالات پر خوب تبصرہ کیا کہ ’ اقتدار پسندوں نے عام آدمی کی زندگی پر انگوٹھا رکھ دیا ہے اور اس انگوٹھے کا دبائو مسلسل بڑھتا جا رہا ہے‘۔ ہمارا آنی والا ہر حکمران پاکستان کو صنعتی طور پر دنیا کا طاقتور ملک بنانے کا وعدہ کرتا ہے۔ مگر ان وعدوں کے برعکس عام آدمی پر معاشی بوجھ بڑھتا جا رہاہے۔ جینا مشکل تر ہو گیا ہے۔ قوت خرچ کم ہوتے ہوتے صفر پر آ رہی ہے۔ اخراجات تنخواہوں سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ کاروبار زندگی ٹھپ ہو رہا ہے۔ جو لوگ برسر روزگار ہیں، انہوں نے آمدن کا اضافی ذریعہ کیا ڈھونڈنا، حالات کی وجہ سے ان کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب لاکھوں نوجوان بشمول ہنر مند ایسے ہیں جن کے پاس بیرون ملک جانے کیلئے وسائل نہیں ہیں مگر یہاں بھی انہیں روزگار کے مواقع میسر نہیں آ رہے۔ پاکستان ایسے لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بنتا جا رہا ہے۔ یہ سمندر بپھر کر ایک بحران کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ ایسے افراد کے پاس جرائم کی دنیا میں قدم رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ ایسے میں فیصلہ کن قوتوں کو سوچنا ہوگا کہ ملک میں جس طرح مہنگائی، بے روزگاری اور افراتفری بڑھتی جا رہی ہے، اگر اس بھوک کا علاج کرتے ہوئے لوگوں کو ریلیف نہ دیا گیا تو پاکستان رفتہ رفتہ افرادی قوت سے محروم ہوتا جائے گا۔