Editorial

شفاف انتخابات کیلئے راست کوششوں کی ضرورت

ملک عزیز 2018ء کے بعد سے ترقی معکوس کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ وہ سنگین تجربات کیے گئے، جس کا خمیازہ ملک اور قوم آج بھگت رہے ہیں۔ معیشت کے ساتھ کھلواڑ نے اس کا بٹہ بٹھا دیا۔ معیشت کے لیے بارودی سُرنگیں بچھائی گئیں۔ ترقی کے سفر کو روک دیا گیا۔ ملک کو سفارتی سطح پر تنہائی سے دوچار کرنے کے لیے مذموم ہتھکنڈے اختیار کیے گئے۔ سی پیک ایسے منصوبے پر کام سست روی کا شکار کرکے اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستانی روپے کی بے توقیری کی بنا ڈالی گئی۔ اس کو جان بوجھ کر ڈالر کے سامنے چاروں شانے چت کیا گیا۔ ناقص پالیسیوں نے ملک و قوم کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا۔ تاریخ کی بدترین مہنگائی قوم پر مسلط کی گئی۔ مہنگائی سے غریبوں کی چیخیں نکالنے کی باتیں بڑی ڈھٹائی سے کی جاتی رہیں، یہ کہتے ہوئے اُس وقت کے حکمرانوں کو ذرا شرم نہ آئی۔ معیشت کا کباڑا کیا اور قوم کا بھرکس نکال دیا اور آج خود کو تمام خرابوں سے بری الذمہ قرار دیتے نہیں تھکتے۔ قوم آج بھی مہنگائی کے بدترین نشتر سہ رہی ہے۔ گو پچھلے کچھ دن سے ڈالر، سونا، گندم، چینی، کھاد اور دیگر اشیاء کے ذخیرہ اندوزوں اور سمگلرز کے گرد گھیرا تنگ ہے۔ اُن کی خلاف کریک ڈائون کیا جارہا ہے اور یہ تمام اشیاء وافر برآمد کی جارہی ہیں۔ ان کارروائیوں کے طفیل ڈالر کے نرخ میں پچھلے پندرہ سے زائد ایام سے تسلسل سے کمی واقع ہورہی ہے، لیکن اس کے اثرات سے قوم محروم ہے، بلکہ اس دوران مہنگائی میں مزید شدّت آئی ہے، خود نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بڑا اضافہ کیا ہے۔ آٹے کے دام بڑھ رہے ہیں اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافے کے سلسلے ہیں۔ معیشت کی صورت حال انتہائی دگرگوں ہے۔ حالات دن بہ دن سنگین ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اس صورت حال میں عوام اور سیاسی حلقوں کی جانب سے جلد از جلد عام انتخابات کرانے اور اقتدار منتخب حکومت کو منتقل کرنے کے مطالبات سامنے آرہے ہیں۔ اس ضمن میں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی کھل کر گفتگو کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی تکالیف کا ادراک ہے، مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہیں، ٹیکس نظام میں بہتری سے عوام کو ریلیف ملے گا، انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو اقتدار منتقل کر دیں گے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستان کا موقف بھرپور انداز میں پیش کروں گا، نواز شریف کی وطن واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں، ان کا معاملہ عدالت میں ہونے پر عدالتیں ہی اس پر فیصلہ کریں گی، انتظامی اقدامات کے باعث ڈالر کی قیمت میں کمی، کھاد، چینی سمیت دیگر اشیاء ضروریہ کی اسمگلنگ کی روک تھام میں مدد ملی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم
نے کہا کہ عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں کے تناظر میں پٹرول کی قیمتوں کا تعین کیا جاتا ہے، بدقسمتی سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے، پاکستان جیسے ممالک کیلئے یہ بڑا چیلنج ہے، عوامی احتجاج سے متعلق میڈیا کے ایک حصہ نے میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا، جو بات کہی نہ گئی ہو وہ تہمت اور صحافتی بددیانتی کے زمرے میں آتی ہے، امید ہے کہ میڈیا میں بھی اخلاقیات اور ضابطہ اخلاق پر عمل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ خراب ٹیکس نظام کے باعث عوام کو مشکلات کا سامنا ہے، ہمیں اپنے ٹیکس نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہی کیونکہ کئی دہائیوں سے ٹیکس کے نظام میں اصلاحات نہیں کی گئیں، انتظامی اقدامات کے باعث روپیہ مستحکم ہوا ہے، یہ ہم سب کا کریڈٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کا نظام دیگر اداروں کے مقابلے میں مضبوط ہے، آرمی چیف آئین کی عمل داری کے بھرپور حامی ہیں، سویلین اداروں کی استعداد کار میں اضافہ اور کارکردگی میں بہتری پر توجہ مرکوز ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاجر برادری کو سرمایہ کاری اور کاروبار کے بارے میں تحفظ کے خواہاں ہیں، تاکہ انہیں سازگار اور کاروبار دوست ماحول میسر آئے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے مفاد میں بعض اوقات مشکل اور تلخ فیصلے کرنا پڑتے ہیں، یہ منصب کا تقاضا ہوتا ہے، عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالنے کیلئے کوشاں ہیں، عوام کارکردگی کی بنیاد پر اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ وہ اس شخص کو ووٹ دیں گے جس کے پاس معاشی بحالی کا منصوبہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن اس حوالے سے پوری تیاری کر رہا ہے اور آئین کے مطابق اقدامات کر رہا ہے، فنڈز اور سیکیورٹی کے معاملے پر الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہماری ذمے داری ہے اور اس ذمے داری کو پورا کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آئینی طریقہ کار کے تحت موجودہ نگراں حکومت وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف نے مشاورت سے تشکیل دی، جس دن نئی حکومت قائم ہوگی اُس وقت انتقال اقتدار نومنتخب حکومت کے حوالے کر دیں گے، انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا آئینی اختیار ہے، وہ اس حوالے سے اپنی ذمے داری پوری کرنے کیلئے دن رات کوشاں ہے۔ نگراں وزیراعظم نے عام انتخابات سے متعلق کسی ابہام کے بغیر کھلی اور واضح گفتگو کی ہے۔ وہ اس سے قبل بھی بارہا اس ضمن میں اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انتخابی عمل کا شفافیت اور غیر جانبدارانہ انعقاد کیا جائے۔ دھاندلی اور دیگر خرابیوں کا اس میں ذرا بھی شائبہ نہ ہو۔ شفاف انتخابات کے لیے راست اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے نگراں حکومت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہر طرح معاونت کرے۔ بروقت عام انتخابات پوری قوم کا مطالبہ ہے۔ اس حوالے سے نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کو اپنی ذمے داری پوری تندہی سے ادا کرنی چاہیے۔ خدا کرے کہ عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی حکومت ملک اور قوم کے مصائب میں کمی لانے کا باعث بنے اور ملکی ترقی، عوامی خوش حالی کے سفر کا پھر سے آغاز ہوسکے۔
ریلوے کرایوں میں پھر اضافہ
چند دن قبل ڈالر کی قیمتوں میں تسلسل کے ساتھ کمی کے باوجود نگراں حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کیا ہے، پٹرول 26روپے 2پیسے فی لیٹر مہنگا کیا گیا جب کہ ڈیزل کی قیمت میں 17روپے سے زائد فی لٹر بڑھوتری کی گئی۔ اس کے منفی اثرات معاشرے پر ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ پہلے ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں من مانا اضافہ کرتے ہوئے شہریوں کی جیبوں پر بڑی نقب لگائی، اب ریلوے کرائے بھی بڑھا دئیے گئے، حالانکہ 15 روز قبل بھی ریلوے کے کرایوں میں 5فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں میڈیا رپورٹس کے مطابق ریلوے حکام نے فیول کی قیمتوں میں اضافہ ہونے پر ٹرین کرایوں میں 5فیصد پھر اضافہ کر دیا ہے۔ کرایوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ ایک ماہ کے دوران تیسری مرتبہ ریلوے کرائے بڑھائے گئے ہیں۔ دوسری جانب مہنگے آٹے نے غریب طبقے کو چکرا کر رکھ دیا ہے، اوپن مارکیٹ اور یوٹیلیٹی سٹورز پر آٹے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، سرف اور آئل کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگیں۔ اوپن مارکیٹ میں آٹے کا 20کلو کا تھیلا 2750سے زائد میں فروخت، یوٹیلیٹی سٹورز پر 20 کلو کا تھیلا 2400سے زائد کا فروخت ہورہا ہے۔ مذکورہ بالا رپورٹس سنگین حالات کی غمازی کرتی ہیں۔ پانچ، ساڑھے پانچ سال سے بدترین مہنگائی کے نشتر کھانے والے غریب عوام کی زندگی مزید اجیرن کی جارہی ہے۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ محض 15، 20روز کے دوران ہی دو بار ریلوے کے کرائے بڑھا دئیے گئے۔ عوام کا ذرا بھی خیال نہیں کیا گیا۔ یہ ظلم کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے۔ آخر مہنگائی کے سیلاب کب تک غریبوں کے آشیانوں کو تہہ و بالا کرتے رہیں گے۔ کب غریبوں کو سُکھ کا سانس نصیب ہوگا۔ کب اُن کے لیے زندگی سہل ہوگی۔ کیا اُنہیں اس معاشرے میں جینے کا حق نہیں۔ اُن کو روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑ رہے۔ اُن کے ماہانہ اخراجات آمدن سے کئی گنا زیادہ ہوگئے ہیں۔ آمدن وہی ہے اور اخراجات شیطان کی آنت کی طرح بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ غریبوں کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ غریب عوام کے درد میں بڑھ چڑھ کر بیانات سامنے آتے ہیں اور اُنہی کے مصائب میں انتہائی بے دردی سے اضافہ کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں سوچا جاتا۔ طبقہ اُمرا کے لیے تو زندگی پہلے ہی سہل ہے اور اُنہیں ٹیکس کی بھرپور چوری کے باوجود تمام تر سہولتیں میسر ہیں۔ اس ملک میں آخر غریبوں کا کب سوچا جائے گا۔ کب اُن کو آسانیاں بہم پہنچائی جائیں گی۔ آٹا جو بنیادی ضرورت ہے، مافیا نے اُن کی پہنچ سے دُور کر دیا ہے۔ کوئی تدارک اور سدباب نہیں کیا جارہا۔ جس کا جو جی چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ کبھی آٹے کا مصنوعی بحران پیدا کر دیا جاتا ہے تو کبھی چینی کے بحران کے نام پر اس کے دام ہوش رُبا حد تک بڑھادیے جاتے ہیں۔ حکومتی عمل داری کہیں ڈھونڈے سے بھی دِکھائی نہیں دیتی۔ حالات خاصے گمبھیر ہیں۔ غریبوں کی زندگی کو مشکلات سے نکالنے کے لیے راست اقدامات ناگزیر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button