
غیر قانونی افغانیوں کی واپسی
رفیع صحرائی
پاکستان کی نگران حکومت نے پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغانیوں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان جناب انوارالحق کاکڑ نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ جن افغان مہاجرین کے پاس ویزا یا دستاویز نہیں انہیں فوری واپس بھیجیں گے۔
پاکستان میں افغان مہاجرین کی آمد کا سلسلہ 80ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ ان افغانیوں کو پناہ گزیں کیمپوں میں رکھا گیا، ان کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جاتی اور ان کی خوراک وغیرہ کا بندوبست بھی حکومتِ پاکستان کے ذمے تھا۔ چونکہ افغانستان پر روس قابض تھا اس لیے امریکہ اور یورپی ممالک نے پاکستان پر ڈالروں کی برسات کی ہوئی تھی۔ ان ڈالروں کے سائے میں ہمارے حکمران یہ بات قطعاً بھول گئے کہ ان افغانیوں کو واپس ان کے وطن بھی بھیجنا ہے۔ یہ مہاجرین ان کے لیے آمدن کا ایک بڑا ذریعہ جو بن گئے تھے۔ افغان مہاجرین نے موقعے سے فائدہ اٹھایا اور مہاجر کیمپوں سے نکل کر پاکستان کے شہروں اور قصبات میں پھیلتے چلے گئے۔ ایک کروڑ کے قریب افغانیوں کو پاکستان میں کینسر کی طرح پھیلانے میں سب سے بڑا کردار نادرا نے ادا کیا ہے جس نے تقریباً ہر افغانی کو پاکستانی شناختی کارڈ بنا کر دیا ہوا ہے۔ اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سب سے پہلے ان افغانیوں کے شناختی کارڈ بلاک کیے جائیں گے۔ اگر پاکستان ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پاکستان اپنے سر سے بہت بڑا بوجھ اتار پھینکے گا۔
دنیا بھر میں یہ قانون ہے کہ پناہ گزینوں کو کیمپوں میں رکھا جاتا ہے۔ انہیں مخصوص تعداد اور خصوصی شرائط کیساتھ ایک علاقے تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں افغان پناہ گزینوں کو پورے ملک میں بلا روک ٹوک آنے جانے اور ہر طرح کا کاروبار کرنے کی اجازت ہے جس کی آڑ میں وہ اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ سے لے کر دہشت گردی کی کارروائیاں بھی کرتے ہیں۔
دیکھا جائے تو پاکستان کے 80فیصد مسائل ان افغانیوں کے پیدا کردہ ہیں۔ دہشت گردی، روپے کی گراوٹ، بے روزگاری، اسلحہ اور منشیات کی فراوانی، گاڑیوں کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان کی وارداتیں، انسانی اسمگلنگ، منی لانڈرنگ اور معیشت کی تباہی کی بڑی وجہ یہ افغانی ہی ہیں۔
ایک طرف یہ افغانی مختلف جرائم میں ملوث ہیں تو دوسری طرف ہمارے پورے انفراسٹرکچر بھی یہ لوگ قابض ہیں۔ افغانیوں نے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کر کے مارکیٹیں اور پلازے خریدے اور کپڑے سے لے کر الیکٹرانکس تک ہر قسم کا کاروبار شروع کر دیا۔ آپ بڑے شہروں میں دیکھیں جگہ جگہ ’’ خان جی‘‘ کے بورڈ مارکیٹوں میں نظر آئیں گے۔ افغانی مالک بنے بیٹھے ہیں اور پاکستانی چند ہزار روپوں پر ان کے ہاں ملازم ہیں۔
افغانستان کی معیشت کا سارا دارومدار پاکستان پر ہے۔ اسے روزانہ کی بنیاد پر قریباً دس سے پندرہ ملین ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے جس کا نصف پاکستان میں مقیم افغانی منی لانڈرز پورا کرتے ہیں۔ یہ افغانی افغانستان سے کوئلہ، میوہ جات اور دوسری اشیا ء افغان کرنسی میں خریدتے ہیں اور پاکستان لا کر منافع سمیت پاکستانی روپوں میں فروخت کرتے ہیں۔ افغانیوں کو پاکستانی روپیہ اپنے ملک میں لے جانے کی اجازت نہیں ہے چنانچہ وہ منی چینجرز کے ذریعے روپوں کو ڈالروں میں تبدیل کرتے ہیں اور وہ ڈالر افغانستان سمگل کر دیتے ہیں۔ اس غیر قانونی ترسیل سے پاکستان میں ڈالرز میں کمی واقع ہو رہی ہے جس کا دبائو روپے پر پڑ رہا ہے اور یوں روپیہ مسلسل گر رہا ہے جبکہ افغانی کرنسی مستحکم ہو رہی ہے۔ اسی لیے پرائیویٹ طور پر منی چینجنگ کا کاروبار ختم کر کے صرف بنکوں کے ذریعے غیرملکی کرنسی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ کرنسی تبدیل کروانے والے کا ریکارڈ مرتب کیا جا سکے۔ نیز اس سے کرنسی کی ملکیت کے بارے میں معلوم ہو سکے اس طرح سے ملک میں موجود غیر ملکی کرنسی ریگولیٹ بھی ہو سکے گی۔
موجودہ حکومت نے غیر قانونی افغانیوں کو ملک سے نکالنے کا مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر جلد از جلد عمل درآمد کر کے اس ناپسندیدہ بوجھ سی جان چھڑانا ناگزیر ہے۔