ٹیکس چوری کے سدباب کیلئے راست کوششیں ناگزیر
وطن عزیز میں ٹیکس چوری کی ریت خاصی پُرانی ہے۔ یہاں غریب عوام سے ہر شے پر تو باقاعدگی سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، لیکن بڑی مچھلیاں اپنے اثر و رسوخ اور دولت کے بَل پر بڑی بڑی ٹیکس چوریاں کرتی ہیں اور معاشرے میں عزت کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری بھی رکھتی ہیں۔ ٹیکس نادہندگان کی جانب سے محصولات کی ادائیگی نہ کرنے کے باعث وطن عزیز معاشی طور پر مشکلات کا شکار رہتا ہے۔ اس کا تمام تر بوجھ غریب عوام کے کاندھوں پر منتقل کیا جاتا ہے اور اُن سے بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات اور دیگر مدات میں ٹیکسز کی وصولی کی جاتی ہے۔ اس وقت یہی صورت حال ملک عزیز میں چل رہی ہے۔ اگر ٹیکس نادہندگان باقاعدگی کے ساتھ محصولات کی ادائیگی کی بِنا ڈالیں اور اس پر پابندی کے ساتھ گامزن رہیں تو کچھ ہی سال میں ملک معاشی طور پر بہتر صورت حال میں پہنچ سکتا ہے، لیکن یہاں ایمان داری سے چلنا کون چاہتا ہے، سبھی دو نمبری سے ٹیکس کی ادائیگی سے بچتے اور محفوظ رہتے ہیں۔ وہ بھاری بھر کم رشوت دے کر ٹیکس چوری تو کر لیتے ہیں، لیکن یہ رقم ملکی خزانے میں جمع کرانا گوارا نہیں کرتے۔ یہ سلسلہ کئی عشروں سے جاری ہے اور نہ جانے کب ختم ہوگا، اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے لیے بدعنوانی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ہر سال ہی اس باعث ملکی خزانے کو اربوں، کھربوں روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ بدعنوانی کے عفریت نے ہمارے پورے سماج کو جس طرح گزند پہنچائی ہے، ایسا نقصان شاید ہی کسی اور خرابے سے پہنچا ہو۔ مہذب معاشروں میں ہر ذمے دار شہری باقاعدگی سے ٹیکس کی ادائیگی کرتا ہے، اس وجہ سے وہاں کی معیشت کی صورت حال نا صرف بہتر ہے بلکہ ملکی ترقی اور عوامی خوش حالی کا سفر بھی باقاعدگی سے جاری ہے اور حکومتیں بھی اپنے عوام کو بے پناہ سہولتیں فراہم کررہی ہیں جب کہ یہاں اس کے بالکل برعکس ہورہا ہے، وطن عزیز میں ٹیکس ادائیگی سے بچنے کے لیے مختلف حربے آزمائے جاتے ہیں۔ کیا کیا جتن نہیں کیے جاتے۔ ہر طرح سے ملکی خزانے کو گزند پہنچانے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ یہاں ٹیکس چوری اور فراڈ کی ایسی ایسی داستانیں بکھری پڑی ہیں کہ الامان والحفیظ۔ کیا کیا بیان کیا جائے۔ اس حوالے سے اطلاعات آئے روز میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔ اس سب کا یہ مختصر سی تحریر احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ گزشتہ روز شہر قائد سے 314 ارب روپے کا بڑا ٹیکس فراڈ پکڑا گیا ہے۔ ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ آف انٹرنل آڈٹ ان لینڈ ریونیو کراچی نے 314ارب روپے کا ٹیکس فراڈ پکڑ لیا۔ ایف بی آر انٹرنل آڈٹ کراچی نے ٹیکس فراڈ کی تحقیقات بھی شروع کردی۔ ڈائریکٹر جنرل انٹرنل آڈٹ ان لینڈ ریونیو کی ٹیم نے ٹیکس فراڈ پکڑا ہے۔ کے ایچ اینڈ سنز نامی جعلی کمپنی نے 314ارب روپے کا ٹیکس فراڈ کیا ہے۔ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ کے ایچ اینڈ سنز نامی کمپنی کاغذات میں ہے، کمپنی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ فراڈی کمپنی بے نامی شخص محمد کاشف کے نام پر رجسٹرڈ تھی۔ کمپنی نے آئرن اینڈ اسٹیل کا جعلی کاروبار ظاہر کیا۔ رجسٹریشن کے لیے کمپنی کا لیاقت مارکیٹ، اگیری مارکیٹ، ایم اے جناح مارکیٹ، کراچی کا پتہ درج تھا۔ 314ارب روپے کے فراڈ کا انکشاف ہونے کے بعد بھی ایف بی آر کی جانب سے تاحال کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔ ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر درج نہ ہونے سے ملزمان بیرون ملک فرار ہوسکتے ہیں۔ جعلی کمپنی کو متعدد غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔314ارب روپے کا ٹیکس فراڈ بڑا انکشاف ہے۔ ضروری ہے کہ اس معاملے کی شفاف تحقیقات کرائی جائے اور اس میں جو عناصر ملوث ہیں، انہیں نشان عبرت بنایا جائے۔ ملک کی معیشت کی صورت حال کسی طور بہتر قرار نہیں دی جاسکتی۔ ملکی آبادی کی اکثریت غریبوں پر مشتمل ہے، جو اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ٹیکس آمدن سے نظام مملکت چلایا جاتا ہے، یہاں اس حوالے سے صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ وطن عزیز مزید کسی محصولات کی چوری یا فراڈ کا متحمل ہرگز نہیں ہوسکتا۔ جن پر ٹیکس کی ادائیگی فرض ہے، اُنہیں بھی ملک کے ذمے دار شہری ہونے کے ناتے بروقت محصولات ادا کرنے کی عادت اختیار کرنی چاہیے۔ ضروری ہے کہ وطن عزیز میں ٹیکس چوری کی ریت کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ ٹیکس نادہندگان کو محصولات کی ادائیگی کی جانب راغب کرنے کے لیے راست کوششیں کی جائیں۔ اس حوالے سے موثر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ ٹیکس نادہندگان کے خلاف ملک کے طول و عرض میں کریک ڈائون کیا جائے۔ ان کے خلاف کارروائیاں تسلسل سے جاری رکھی جائیں۔ یہ اقدامات تب تک کیے جائیں جب تک یہ پابندی سے ٹیکس کی ادائیگی کی جانب راغب نہیں ہوجاتے۔ بڑے ٹیکس نادہندگان کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔ اگر ملک عزیز میں ٹیکس نادہندگان محصولات ادا کرنے کی روش اختیار کرلیں تو یہ اُن کی ملک و قوم کے لیے بڑی خدمت شمار ہوگی۔
سموگ کا تدارک، پنجاب حکومت کا احسن فیصلہ
موسم سرما میں سموگ کا مسئلہ ملک کے اکثر علاقوں میں سر اُٹھاتا ہے۔ اس کے باعث نا صرف مختلف امراض پھیلتے بلکہ دھند چھائے رہنے کے باعث حادثات میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ سموگ کی بنیادی وجہ ماحولیاتی آلودگی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان دُنیا کے اُن خطوں میں شامل ہے، جہاں ماحولیاتی آلودگی کے باعث زیادہ تباہ کاریاں جنم لے رہی ہیں۔ موسمی تغیرات سے سب سے زیادہ وطن عزیز متاثر ہے۔ شدید گرمی اور شدید سردی یہاں پڑتی ہے۔ فصلوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس وقت موسم سرما کی آمد آمد ہے۔ اس دوران ملک کے مختلف علاقوں میں سموگ میں خاصی شدّت محسوس ہورہی ہے۔ اس سے طرح طرح کے امراض پیدا ہوتے ہیں۔ خصوصاً بچے نازک ہونے کے باعث ان کی لپیٹ میں زیادہ آتے ہیں۔ سموگ کا سلسلہ کئی سال سے چل رہا ہے۔ ایسا تب ہی ہوسکتا ہے جب ہم اپنے ماحول کو انسان دوست بنائیں۔ آلودگی اور گندگی پر مکمل قابو پایا جائے۔ ہر شہری ذمے داری کا ثبوت دے اور جس طرح اپنے گھر کو صاف رکھتا ہے، اسی طرح گلی، محلوں، سڑکوں اور عوامی مقامات کی صفائی کا بھی خیال رکھے۔ سموگ کے تدارک کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس حوالے سے حوصلہ افزا اطلاع پنجاب سے آئی ہے، جہاں کے شہری علاقوں کی سڑکوں کو ڈسٹ فری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق سموگ کے تدارک کے لیے اربن سڑکوں کو ڈسٹ فری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سموگ سے بچائو کے لیے سڑکوں کو واش کیا جائے گا۔ ایل ڈبلیو ایم سی کو لاہور کی سڑکیں واش کرنے کا ٹاسک سونپ دیا گیا جبکہ ڈپٹی کمشنرز کو غیر معیاری فیول بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔ چین روانگی سے قبل نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کے زیر صدارت وزیراعلیٰ آفس میں سموگ کے تدارک کے لیے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی اجلاس منعقد ہوا، جس میں بتایا گیا کہ انڈسٹریز کو ماحول دوست بنانے کے لیے ورلڈ بینک کے اشتراک سے مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔ محسن نقوی نے سموگ پری وینشن اینڈ کنٹرول رولز 2023پر عمل درآمد یقینی بنانے کا حکم دیا اور صوبہ بھر میں سموگ کو کم از کم سطح پر لانے کے لیے تمام متعلقہ محکموں سے جامع پلان طلب کرلیا۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ بار بار اینٹی سموگ پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے اداروں کو دو ماہ کے لیے سِیل کیا جائے گا۔ چاول اور دیگر فصلوں کی باقیات کو جلانے سے روکنے کے لیے کاشت کاروں سے پیشگی بیان حلفی لیا جائے۔ سموگ کے تدارک کے لیے پنجاب حکومت کا فیصلہ لائق تحسین ہے۔ اس پر نگراں پنجاب حکومت کی جتنی توصیف کی جائے کم ہے۔ اس تناظر میں دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو بھی پنجاب کی تقلید کرتے ہوئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک میں پائے جانے والے سموگ کے سنگین مسئلے کے حوالے سے صورت حال بہتر رُخ اختیار کر سکے۔