Column

آخری فیصلے میں نجات

تحریر : سیدہ عنبرین
عمر عطا بندیال بھی رخصت ہوئے مگر روتے ہوئے، خیال تھا کہ وہ آخری خطاب میں ایسی بھڑک دکھائیں گے جو شعلہ بجھنے سے پہلے دکھاتا ہے مگر ایسا نہ ہوا۔ مسند پر بیٹھ کر شیر کی طرح دھاڑنے والا وقت رخصت شیر کی خالہ بلکہ خالی خولی نظر آیا، جاتے جاتے فرمایا میں تو ڈوبتا سورج ہوں، یہ نصف سچ ہے وہ ڈوب رہے تھے مگر سورج نہ تھے، سورج تو ڈوبتے وقت بھی رنگ بکھیرتا ہے، وہ فقط ایک دیا تھے، جس کے نیچے بھی روشنی میں اندھیرا تھا۔ انہوں نے جاتے وقت آخری گیند پر چھکا مارا لیکن یہ شاٹ بھی انہیں بعد از ریٹائرمنٹ ہی زندگی نہ دے سکا۔ اس شاٹ کے نتیجے میں شاید متعدد شخصیات کی سیاسی زندگی کے چراغ گل ہو جائیں۔ کون انہیں کس نام سے یاد رکھتا ہے، یہ نام وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں گے۔ شاید نامور ہونے کی آرزو پوری نہ ہو، وہ ماضی بن گئے ہیں، ان کا نام، کردار اور فیصلے سب کچھ ماضی ہے۔ آئیے ذرا مستقبل میں جھانکیں۔ ایک غیر ملکی ایئر پورٹ پر پاکستانی ایئر لائن کے جہاز کو پٹرول دینے سے انکار کر دیا گیا، یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ متعدد بار ایسا ہو چکا ہے۔ رکشے والا گھر سے کام کیلئے نکلتا ہے تو ٹینک فل کرا کر نکلتا ہے، دن کے کسی حصے میں اسے اندازہ ہو تو راستے میں رک کر ضرورت کے مطابق پٹرول لے لیتا ہے، اس کی جیب میں اس کی کمائی موجود ہوتی ہے، پیسے نہ بھی ہوں تو سواری سے پیسے لے کر پٹرول ڈلوا لیتا ہے، سواری اسے منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی پٹرول ڈلوانے کیلئے پیسے دے دیتی ہے، کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اسے منزل پر پہنچا دیا جائے گا۔ صد افسوس پاکستان ایئر لائن پر کسی کو اعتبار نہیں، اس کا کمایا ہوا روپیہ اس کی جیب میں نہیں، دنیا بھر میں نام اس قدر خراب ہو چکا کہ کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں، ایئر لائن چلانے والے کس قدر عقل کے اندھے ہیںکہ گھر سے چلتے ہوئے ضرورت کا پٹرول لے کر نہ چلے، جہاز کے ٹینک میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ وہ بارہ سے اٹھارہ گھنٹے بغیر رکے، بغیر مزید پٹرول لئے پرواز کر سکتا ہے۔ امریکہ لندن کی پروازیں اس طرح ہوتی ہیں، یہ معاملہ تو ایک خلیجی ملک کا تھا، جہاز کا پٹرول ختم نہیں ہوتا چاہئے تھا مگر وہ ہو گیا۔ نگران حکومت کا اپنا معاملہ بھی ملتا جلتا ہے اس کا پٹرول بھی ختم ہوتا نظر آتا ہے۔ اسے ضرورت کے مطابق پٹرول ملے گا یا اسے کسی بھی وقت دھکے لگا لگا کر آگے بڑھانا پڑے گا، سب کچھ بے یقینی ہے، نگران وزیراعظم اپنی کابینہ میں غیر ضروری اضافہ کر کے اپنا بوجھ
بڑھا رہے ہیں۔ ان میں کچھ افراد ایسے ہیں جو بذات خود بوجھ تھے۔ وہ اپنا بوجھ اٹھانے کی پوزیشن میں نظر آتے جہاز سرکار رک گیا تو اسے کیا خاک دھکا لگائیں گے، ایسا وقت آیا تو اسے کسی گہری کھائی میں دھکیل دیں گے۔ جہاز کا پٹرول ختم ہوا تو نگران وزیراعظم نے فرمایا پی آئی اے کی نجکاری کا عمل تیز کیا جائے، ان کے اس بیان کی کوئی ضرورت نہ تھی، جنہوں نے سودا بیچنا اور مال کمانا ہے، وہ بہت تیز ہیں اور اپنے منصوبے پر بہت تیزی سے کام کر رہے ہیں۔ عید سے قبل بتایا گیا کہ جناب نواز شریف حج کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ لندن سے چلے اور دبئی رک گئے۔ ان کے چھوٹے بھائی، سمدھی اور دختر عزیز بھی دبئی پہنچ گئے۔ اچانک خبر آئی کہ حج کا ارادہ کینسل ہو گیا ہے، سب نے عید منائی اور واپس اپنے اپنے مورچے پر پہنچ گئے۔ جناب نواز شریف دبئی میں قیام پذیر رہے، وہ برج خلیفہ یا برج العرب کی سیر کیلئے نہیں رکے تھے۔ انہوں نے اپنے قیام کے دوران دور دور سے آئے اہم کاروباری افراد اور انویسٹمنٹ کینوریشم کے نمائندوں سے ملاقاتیں کیں، ان ملاقاتوں میں ملک سنوارنے کے معاملات سرفہرست تھے، ان کے مطابق ملک سنوارنے کیلئے ملکی اثاثے فروخت کرنا ضروری اور سر فہرست ہے، میاں نواز شریف دبئی قیام کے بعد لندن چلے گئے، پھر کچھ نئی ملاقاتوں کیلئے دوبارہ آئے، اس مرتبہ بھی انہوں نے ملک کو مسائل سے نکالنے اور اس کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے دن رات ملاقاتیں و مشورے جاری رکھے، پھر جب انہیں اطمینان ہو گیا کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے اور ان کی مرضی اور وژن کے
مطابق ہو گیا ہے تو انہیں قدرے چین آیا، انہوں نے کچھ چینیوں سے بھی ملاقات کی، خبریں ذرائع نے دیں اور تصدیق کی۔ اب منظر نامہ واضح ہے پی آئی اے کی اربوں روپے کی جائیدادیں ہتھیانے والے دروازے پر ہیں، مہنگے ترین اور کئی ارب ڈالر مالیت کے روز ویلٹ ہوٹل کو ٹھکانے لگانے کیلئے مالیاتی شہر کا تقرر ہو چکا ہے جبکہ دیگر قیمتی اثاثے خریدنے کے خواہشمندوں سے ابتدائی بات چیت مکمل ہو چکی ہے، ادھر بیعانہ اور کمیشن ٹرانسفر ہو گا ادھر مال نئے مالکوں کے حوالے ہو جائے گا، ہم جھولی جھاڑ کر پھر سڑک کنارے بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ معاملات کو مزید تیزی سے آگے بڑھانے کیلئے پاکستانی تاریخ کے دیانت دار ترین بیورو کریٹ اور نواز شریف صاحب کے سابق پرنسپل سیکرٹری کو وزیر بنا دیا گیا ہے، وہ وزیر نجکاری ہی بنائے گئے ہیں، ان کے تقرر نے تمام شکوک و شبہات دور کر دیئے ہیں، اب ہونی ہو کر ہی نہیں رہے گی بلکہ انہونی بھی ہونی ہو جائے گی۔ دبئی میں ایک اور منظر بھی نظر آیا اور موٹے تازے پلے پلائے بلکہ آپے سے باہر ہوتے بلے اپنے سامنے چھچھڑوں کا ڈھیر لگائے بیٹھے تھے، دونوں کے ساتھ ان کے مشیر و معاون بھی موجود تھے، دونوں نے نہایت افہام و تفہیم سے انصاف کے تمام تقاضوں کے مطابق اپنی اپنی پسند کے چھیھڑے اٹھا کر اپنے سامنے رکھ لئے، یہاں کچھ اختلاف ہوا اور کہا گیا کہ پنجاب کے چِھچھڑے اہل پنجاب کے ہیں جبکہ سندھ کے چھچھڑے اہل سندھ کے ہونے چاہئیں، اختلاف جلد ختم ہو گیا اور معاملات طے پا گئے۔ فیصلے کیلئے کسی لومڑی یا بندر کے پاس جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی، معاملات صوبائیت کے تحت نہیں بلکہ بھائی چارے کے جذبات کے تحت طے پائے ہیں۔ دس برس بعد کہانی سامنے آئے گی کہ روز ویلٹ کا اصل مالک کون تھا اور پی آئی اے کی فروخت میں کس کو کتنا نذرانہ یا حصہ ملا۔ پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے بہانے اسے ایسے گڑھے میں پھینکا جا رہا ہے جہاں سے باہر نکلنے کی کوئی راہ نہیں، اگر ہے تو عمر عطا بندیال کے آخری فیصلے میں ہے اسے راہ نجات کہہ سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button