Column

اسلام کا معاشرتی نظام زندگی

تحریر : میاں محمد توقیر حفیظ
اسلام کے معاشرتی نظام کے کچھ بنیادی اُصول اور اس کی خصوصیات ہیں، جن پر سارا معاشرتی ڈھانچہ استوار ہے اور اسلام کا دعویٰ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کیلئے جن اُصولوں کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سمجھائے، اسے جس بنیادی فکر اور جس رہنمائی کی ضرورت تھی وہ رب العالمین نے مہیا کر دی۔ اسلام ایک ایسا معاشرہ چاہتا ہے، جس میں خیر و شر کے پیمانے متعین ہوں، کیوں کہ جس معاشرے میں باہمی خیر کے قیام اور شر کو مٹانے کی سعی نہیں ہوتی وہ معاشرے بالاخر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ لہذا اسلام نے سب سے پہلے ان اُمور کی نشاندہی کی ہے جو معاشرے کیلئے مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ ہر قوم اور ملت کا اپنا ایک مخصوص معاشرتی نظام اور اپنی ایک منفرد تہذیب ہوتی ہے، جس کے ذریعے اس کی قومی شناخت اور ملی تشخص قائم رہتا ہے اور اس کا معاشرہ شکست و ریخت اور دوسری تہذیبوں میں جذب ہونے سے محفوظ رہتا ہے۔ اسلامی آداب و اخلاقیات سے انسان پہچانا جاتا ہے، ان سے عاری شخص اندر سے کھوکھلا، ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے، جس کا نقصان اس کو خود بخود پہنچتا رہتا ہے۔ اسلامی آداب و اخلاقیات حسن معاشرت کی بنیاد ہیں ان کے پانے سے انسانی حسن برقرار رہتا ہے۔ حسن اخلاق کی اہمیت اسی سے دوچند ہو جاتی ہے کہ ہمیں احادیث مبارکہ سے متعدد ایسے واقعات ملتے ہیں کہ جن میں عبادت و ریاضت میں کمال رکھنے والوں کے اعمال کو صرف ان کی اخلاقی استواری نہ ہونے کی بنا پر رائیگاں قرار دے دیا گیا۔
قارئین کرام ! حسن اخلاق سے مراد گفتگو اور رہن سہن سے متعلقہ اُمور ہیں، جن کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، انسان کی اپنے دوسرے ساتھی سے گفتگو میں حسن ظن، عمدگی نہ ہو تو انسان کا تشخص بد اخلاقی کی مثال آپ ہوتا ہے، آج ہمارے معاشرے میں یہ چیز عدم برداشت کے باعث عام ہو چکی ہے۔ دوسروں پر جھوٹا رعب، شہرت کا اثر انسان کا طرز عمل بن چکا ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدن کے تمام تر پہلوئوں کو اپنانا اخلاق کی کامل ترین صورت ہے۔ قدرتی طور پر ہر انسان پر ہر انسان کی ضروریات ایک دوسرے سے وابستہ ہو تی ہیں، اس لئے خوشگوار اور آرام دہ زندگی اس کی ہو تی ہے جس کی بود و باش افراد انسانی کے جھرمٹ میں ہو ۔
قارئین کرام ! اسلام کا جو معاشرتی نظام ہے اس کی اصل اساس و بنیاد عقیدہ توحید ہے ۔ لہذا ان دو رکوعوں کا آغاز بھی توحید کے ذکر سے ہو رہا ہے اور اختتام بھی توحید پر ہو رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں رب کے سوا کسی کی بندگی نہیں ہونی چاہئے۔ قانون صرف اسی کا چلے گا کسی انسان ، کسی جماعت یا کسی پارلیمنٹ کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کر دہ قوانین میں مقابلے میں دنیا کی لذتوں کے حصول کیلئے اپنے قانون بناتا پھری ۔ اس کے بنائے ہوئے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور عائلی قوانین میں کسی کو ترمیم کا جواز نہیں ہونا چاہئے کیونکہ توحید و سنت کی روح یہی ہے کہ اس ایک رب کی مکمل بندگی عبادت کی جائے، اُسی کے سامنے سجدہ ریز ہوا جائے۔ لہذا ایک اسلامی معاشرے میں کسی ایسے اقدام کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس سے شرک یا شرکیہ تصورات کو فروغ ملتا ہو، گویا اسلامی معاشرے کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر چوکس رہے کہ شرک کی کوئی الائش اس میں پنپنے نہ پائے۔
قارئین کرام ! اسلام کا معاشرتی نظام زندگی قائم ہے اس کو توڑنے بکھیرنے میں اس روئے زمین پر موجود انسان کی عدم برداشت قوت کا ہاتھ ہے۔ اسلام ایک ایسا نظام ہے اور اپنی خصوصیات کی بدولت دنیا کے تمام معاشرتی نظاموں سے مختلف اور منفرد ہے۔ اسلام کا معاشرتی نظام خیرو اصلاح ، طہارت و تقدس ، ہمدردی و خیر خواہی اور اعتدال و توازن پر قائم ہے۔ اس نظام میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی بہبود کا پورا انتظام موجود ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا فقدان موجود ہے، بے راہ روی، بدکرداری، بد اخلاقی، رشوت خوری، سود خوری، لوٹ کھسوٹ راہ پا گئی ہے وہ کسی صاحب بصیرت اور اصحاب فکر و تدبیر کی دور بین و دور رس نگاہوں سے پوشیدہ نہیں۔ مغربی کلچر و تہذیب کا دلدادہ نوجوان فرائض سے غافل، جھوٹ، چغلی، آپس میں اختلافات و تنازعات میں اس قدر محو ہے کہ اسے اپنی عقبی کی فکر اور احساس سود و زیاں دامن گیر ہی نہیں ہے۔ مزید نہ جانے کتنے عیوب و نقائص رو پذیر ہیں جو قوم مُسلم کے عروج و ترقی میں باعث رکاوٹ بن رہے ہیں اور مسلمانان عالم ہر محاذ پر پستی و زبوں حالی کا شکار نظر آرہے ہیں ۔ ہائے افسوس جس اُمت کو خیر اُمت کے نام سے یاد کیا جا تا ہے جو برائیوں و بداعمالیوں کے خلاف علم جہاد بلند کرکے دُشمنان اِسلام کو زیر کرتی تھی، آج وہی قوم اپنے اسلاف کی مقدس تاریخ کو پس پشت ڈال کر دنیا وی عیش و عشرت میں کھوئی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اور اپنی عزت و ناموس کو ہر سر عام نیلام کر رہی ہے اور حضور اقدسؐ کی پاکیزہ سیرت طیبہ کے پاکیزہ نقوش کو فراموش کر چکی ہے، جن کی زیست کا لمحہ لمحہ روشن و تابناک، جن کے دامن میں حیات پاک کا ہر گو شہ نمونہ عمل و لائحہ تقلید، جن کی زندگی اُسوہ حسنہ، جو نظام قدرت و حیات کا تابندہ ستارہ، جن کے پہلو میں نظام حیات رشک و خنداں، جن کی زندگی کی ہر ساعت پاکیزہ و درخشندہ، جن کی آفاقی اور ہمہ گیر تعلیمات میں قوم کے عروج کا سرمایہ بد رجہ اتم پایا جا تا ہے۔ آج ہم نے ان کے نقش پا کو ترک کر دیا اور اُن کے بتائے ہوئے اُصول زندگی کو بھلا دیا ہے۔ اسی لئے ہمارا ہر جگہ ذلت و پستی سے سامنا ہے ۔
قارئین کرام ! اسلامی معاشرتی نظام ایسے طرز حکومت کا حامی ہے جس میں اعلیٰ و ادنی کیلئے مساوی حقوق کا حکم ہے یہ نظام تمام جمعی انسانوں کیلئے خوشحالی کا ضامن ہے مخصوص افراد کے ہاتھوں میں تمام دولت کے جمع ہونے کو مسترد کرتا ہے اور معاشی و اقتصادی ساکھ کو بہتر بنا کر خوشحالی میسر کرتا ہے جس کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے اس دور میں سرمایہ دار اور مزدور میں کوئی فرق نہیں تھا اور تب نہ کوئی طبقاتی جنگ تھی اور نہ کوئی مادی کشمکش ہر ایک نظام اپنے مخصوص دائرے کار پر کارفرما تھا ہر طرف امن و سکون اور سلامتی تھی اپنے تو اپنے غیروں کے ساتھ بھی کوئی معاملات میں خرابی نہ تھی ۔ مختلف مذاہب کے لوگ بسنے کے باوجود معاشرے میں کوئی بگاڑ کی صورت نہ تھی۔ جب بھی اللہ تعالیٰ کے بندے گمراہی، بد اعتقادی کی طرف بڑھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی کے لئے انبیاء کرام علیہ اسلام کو مبعوث فرمایا مگر یہ ہمارا ایمان کامل یقین ہے آپؐ کے بعد کسی نبیٌ نے نہیں آنا اور بحیثیت اللہ تعالیٰ کے نائب اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے کردار ادا کریں اور اس مقصد کا حصول نہ اشتراکیت کے نظام سے ممکن ہے اور نہ ہی سرمایہ دارنہ نظام سے بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ دین اسلام سے ہی امن و سلامتی ، فلاح و بہبود، بھائی چارگی، بہتر اقتصادی اور معاشی ترقی کا حصول ممکن ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button