
چیف جسٹس اور قاضی عیسیٰ
تحریر : روہیل اکبر
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے 29ویں چیف جسٹس بن گئے ہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 26اکتوبر 1959کو کوئٹہ میں ہزارہ مسلم خاندان میں پیدا ہوئے ان کے دادا قاضی جلال الدین 19ویں صدی کے آخر میں افغان امیر عبدالرحمان کے دور میں ہزارہ کے ظلم و ستم کی مخالفت کی وجہ سے افغانستان سے برطانوی ہندوستان کے صوبہ بلوچستان میں منتقل ہو گئے اور برطانوی راج کے دوران ریاست قلات کے وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد قاضی محمد عیسیٰ محمد علی جناحؒ کے قریبی ساتھی اور مسلم لیگ بلوچستان کے صدر ہونے کے ساتھ سینٹرل ورکنگ کمیٹی میں بلوچستان سے واحد رکن تھے جبکہ پاکستان کے سابق نامور سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی ان کے کزن ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کوئٹہ سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی میں کراچی گرائمر سکول سے اے اور او لیول مکمل کیا اور پھر قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے لندن چلے گئے جہاں انہوں نے انز آف کورٹ سکول آف لا سے بار پروفیشنل اگزامینیشن مکمل کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 30جنوری 1985کو بلوچستان ہائی کورٹ اور مارچ 1998میں ایڈووکیٹ سپریم کورٹ بنے۔ پی سی او کیس فیصلے کے نتیجے میں بلوچستان ہائیکورٹ کے تمام جج فارغ ہوگئے تو جسٹس فائز عیسیٰ 5اگست 2009 کو براہ راست بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس فائز ہوئے جج مقرر ہونے سے قبل27 سال تک وکالت کے شعبے سے وابستہ رہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 5ستمبر 2014کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کی حیثیت سے حلف اٹھایا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پبلک پارکوں کے استعمال، ماحولیات، خواتین کے وراثتی حقوق، فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق اہم فیصلے دیئے۔ عدلیہ سمیت کسی بھی ادارے کیلئے محترم کا لفظ استعمال نہ کرنے کی آبزرویشن بھی دی اور اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیا پی ٹی آئی حکومت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو عہدے سے ہٹانے کیلئے صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا جسے نظرثانی میں اکثریت کی بنیاد پر کالعدم قرار دے دیا گیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلوں میں ہمیشہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی پر زور دیا بطور چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے سپریم کورٹ کے ججز میں اختلافات ختم کرنا، بینچز کی تشکیل اور موجودہ سیاسی صورتحال میں
عدلیہ کا وقار بحال کرنا بڑے چیلنج ہوں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بطور چیف جسٹس پاکستان 25اکتوبر 2024کو عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان کی تمام ہائی کورٹس، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے 27سال سے زائد عرصے تک قانون پر عمل کیا، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ کے تاحیات رکن رہے، جج بننے سے قبل وقتاً فوقتاً انہیں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ نے امیکس کیوری کے طور پر بلایا اور بعض پیچیدہ مقدمات میں مدد حاصل کی۔ انہوںنے بین الاقوامی ثالثی بھی کی ہے، لاتعداد مقدمات جن میں وہ بطور وکیل پیش ہوئے وہ قانون کے جرائد میں رپورٹ بھی ہوئے ہیں۔ اپنے عہدے پر فائز ہونے سے پہلے جسٹس عیسیٰ پاکستان کے انگریزی اخبارات کے لیے باقاعدگی سے لکھتے تھے۔ انہوں نے پاکستان میں ماس میڈیا لاز اینڈ ریگولیشنز نامی کتاب مشترکہ طور پر لکھی، جبکہ بلوچستان میں کیس اینڈ ڈیمانڈ پر ایک رپورٹ بھی تیار کی۔ 3نومبر 2007کی ایمرجنسی کے اعلان کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والے ججوں کے سامنے پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کی جانب سے 3نومبر 2007کے اقدام کو غیر آئینی قرار دینے کے بعد بلوچستان ہائی کورٹ کے تمام اس وقت کے ججوں نے استعفیٰ دے دیا اور 5اگست 2009کو جسٹس عیسیٰ کو براہ راست چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کر دیا گیا اس وقت جسٹس عیسیٰ بلوچستان ہائی کورٹ میں تنہا جج تھے نئے ججز کی تعیناتیوں کے بعد انہوں نے سبی اور تربت میں عدالتیں دوبارہ کھولیں۔ انہوں نے بلوچستان کی تمام عدالتوں کو اپ گریڈ کیا ۔عوام تک رسائی اور سہولیات کی فراہمی پر توجہ مرکوز کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان لاء اینڈ جسٹس کمیشن، نیشنل جوڈیشل ( پالیسی سازی) کمیٹی اور فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے رکن کے طور پر خدمات بھی انجام دیں بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے وہ بلوچستان جوڈیشل اکیڈمی کے چیئرمین بھی رہے ہائی کورٹ کے سینئر ترین چیف جسٹس کے طور پر انہوںنے سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن کے طور پر خدمات بھی انجام دیں انہوں نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی بمقابلہ فیڈریشن آف پاکستان کے معاملے میں سخت اختلاف کیا سندھ ریونیو بورڈ بمقابلہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے معاملے میں ان کا موقف تھا کہ وفاق اور صوبوں کو دوسرے کے حقوق پر حملہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی ایک دوسرے کے قانون سازی کے دائرے میں تجاوز کرنا چاہیے۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کی اہلیت سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں جسٹس عیسیٰ نے حکومت سندھ کو ہدایت کی کہ وہ اہل امیدواروں کے بالترتیب انتخاب اور تقرری کے عمل میں مکمل شفافیت کو یقینی بنائے۔ خالد ہمایوں بمقابلہ نیب کیس میں جسٹس عیسیٰ نے قومی احتساب بیورو کو ایک سرکاری ملازم کے ساتھ پلی بارگین کرنے پر سرزنش کی جو بڑی رقم کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ وومن ایکشن فورم کی جانب سے معلومات کی آزادی کی درخواست کے جواب میں جسٹس عیسیٰ واحد جج تھے جنہوں نے اپنے تمام اثاثوں، آمدنی اور مراعات کی تفصیلات سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر شائع کیں ان کی اہلیہ مسز سرینا عیسیٰ نے بھی رضاکارانہ طور پر ایسا ہی کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے باقی اداروں میں بھی ترقی کا یہی معیار ہونا چاہیے جو سینئر ہو اسے پرموٹ کر دیا جائے تاکہ ہمارے ادارے سیاست سے پاک ہوکر اپنا کام کریں، اب بھی لوگوں کو عدالتوں پر اعتماد ہے، جس کو کہیں سے ریلیف نہ مل رہا ہو تو عدالتیں ہی اس کی زندگی کی ضامن ہوتی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں جو لوٹ مار ہوئی امید ہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کا بھی حساب کتاب کرینگے، وہ ایک محب وطن پاکستانی ہیں، ان کی رگوں میں قاضی عیسیٰ کا خون دوڑ رہا ہے، جو قائد اعظمؒ کے مخلص ساتھی بھی تھے، اس لیے مجھے قاضی کے بیٹے قاضی سے امید ہے کہ ان کے فیصلے بولیں گے کہ ہم نے پاکستان کی سمت درست کردی ہے اب عوام بھی ہمت کریں۔