انتخابات کے حوالے سے ابہام ملکی مفاد میں نہیں

پاکستان اور اس کے عوام انتخابات کے حوالے سے ابھی تک ابہامی کیفیت سے دوچار ہیں جو کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کے بعد عام انتخابات کرانے کے موقف پر قائم ہے تو سیاسی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ انتخابات 90دن کی آئینی مدت کے اندر ہوں، نگران حکومت کے قیام کو ایک ماہ ہونے جارہا ہے۔ اس طرح 30دن نکال دیئے جائیں تو اب آئینی مدت میں انتخابات کیلئے 60دن ہی باقی بچتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو جنرل الیکشن کے حوالے سے اپنے والد آصف زرداری سے مختلف بیانیہ لیکر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے عوامی رابطہ مہم بھی شروع کی ہے جس میں وہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ مخالفین پر بھی تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز انہوں نے کہا کہ ہمارے اتحادی ڈر کے مارے الیکشن سے بھاگ رہے ہیں، سیاست میں ’’ جو ڈر گیا وہ مر گیا ’’، ڈر کر بھاگنا پیپلز پارٹی کی تربیت نہیں، پی ٹی آئی کی عوام دشمن سلیکٹڈ قیادت کا مقابلہ عوام کی طاقت سے کریں گے، پیپلز پارٹی کندھوں پر لاشیں اٹھاکر الیکشن لڑنے کی عادی ہے، ہم ماضی میں الیکشن سے بھاگے اور نہ آج بھاگ رہے ہیں، اتنی کردار کشی کی گئی کہ صرف سندھ میں کچرا ہوتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ باقی ملک میں تو کچرا ہوتا ہی نہیں ہے، آج عوام مہنگائی کے سونامی میں دب گئے ہیں، اشرافیہ جماعتیں حکومت میں ہوتی ہیں تو اپنے سرمایہ دار دوستوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد جوڈیشری، بیوروکریسی، فوج کو پلاٹ مل سکتے ہیں تو عام آدمی کو بھی مل سکتے ہیں، سیلاب متاثرین کو پلان کے تحت ریلیف دینا چاہ رہے ہیں۔ سیاست میں مقابلہ کرنا ضروری ہے ’’ بلدیاتی الیکشن لڑنے کیلئے ایم کیو ایم کو بہت کہا، بس ان کے پائوں نہیں پڑا ’’ نتیجہ یہ ہوا کہ میئر حیدر آباد تو دور کی بات، 2ٹائون بھی پی ٹی آئی سے نہیں بچا سکی۔ پی ٹی آئی نے نفرت اور تقسیم کی سیاست کی ہے، جناح ہائوس اور جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کو ہمارا پیغام ہے کہ ہم آ رہے ہیں اور مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جیسے جیالوں نے مشکل حالات میں عمران نیازی کی ملیر میں ضمانت ضبط کرائی اور ملتا ن میں شکست دی، اسی طرح ملک بھر میں عمران خان کی ضمانت ضبط کر دیںگے۔ سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ میں شہر شہر جاکر پیپلز پارٹی کے خلاف پراپیگنڈے کا جواب دوں گا اور عوام کا بتائوں گا کہ جس طرح حیدر آباد کو پانی دیا ہے، اسی طرح ملتان، فیصل آباد اور پشاور کو پانی دینا چاہتا ہوں، اس لئے آئیں، پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ حیدر آباد کی 12کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، ’’ میرا وعدہ ہے کہ موقع ملا تو پسماندہ علاقوں کے مکینوں کو گھروں کے مالکانہ حقوق دیئے جائیں گے‘‘، آنیوالے الیکشن میں ہم کارکردگی اور گورننس پر الیکشن لڑیں گے۔ جتنی کردار کشی کی گئی کہ سندھ میں کچرا ہے اور باقی پاکستان تو صاف ہے اور جنت بنا ہوا ہے۔ دوسرے صوبوں میں کچرا تو جیسے ہوتا ہی نہیں اور چاروں طرف خوبصورتی ہے لیکن میرے بھائیوں اور بہنوں کو پتہ ہے جب ایم کیو ایم کی ذمے داری تھی تو ہر جگہ جگہ کچرا ہوتا تھا۔ دوسری طرف ایم کیو ایم پاکستان کے ڈپٹی کنوینر انیس قائم خانی نے بلاول بھٹو کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے بلاول بھٹو کو ان کے پاپا نے نئی نوکری پر لگا دیا ہے، پیپلز پارٹی کے قیام سے آج تک کراچی، حیدر آباد نے پیپلز پارٹی کو ہمیشہ مسترد کیا، ایسے میئرز پر ترس آتا ہے جنہیں دونوں شہروں کے شہری میئر ماننے پر تیار ہی نہیں، بلاول بھٹو کے کراچی، حیدر آباد کی میئر شپ سے متعلق بیان پر دنیا ہنس رہی ہے۔ ادھر مسلم لیگ ( ن) کے سینئر رہنما میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو صبح الیکشن کی تاریخ کا اعلان کروا دیں، ان کے گلے میں ہار ڈالیں گے، ن لیگ اور پی پی کبھی اتحادی نہیں تھے، الیکشن جنوری یا فروری میں نظر آرہے ہیں، اسی حساب سے منصوبہ بندی کر رہے ہیں، پیپلز پارٹی کی معاشی ابتری اور انتخابی اصلاحات کی تجویز پر قومی بنانے پر اتفاق کیا۔ نواز شریف الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی اگلی فلائٹ سے واپس آجائیں گے، جنرل ( ر) قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کا حتمی فیصلہ نواز شریف نے نہیں کیا تھا، توسیع کا فیصلہ مسلم لیگ ن کے چار، چھ سینئر لوگوں نے کیا تھا ۔ میاں جاوید لطیف نے کہا کہ ن لیگ نے آئین و قانون کی بالادستی یقینی بناتے ہوئے تین دفعہ اپنی حکومت گنوائی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کبھی اتحادی نہیں تھے، سولہ ماہ کیلئے قومی حکومت قائم ہوئی تھی، ن لیگ تحریک عدم اعتماد کے فوری بعد الیکشن چاہتی تھی، پیپلز پارٹی کی معاشی ابتری اور انتخابی اصلاحات کی تجویز پر ہم نے حکومت بنانے پر اتفاق کیا، اس وقت دو جنرلز میں سے ایک جنرل توسیع کیلئے بارگننگ کر رہا تھا تو دوسرا جنرل آنیوالے وقت میں خود کو قابل قبول بنانے کیلئے کوشش کر رہا تھا۔ میاں جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی مشترکہ مفادات کونسل میٹنگ میں شامل تھی، پیپلز پارٹی جانتی تھی مردم شماری نوٹیفائی ہونے کے بعد نئی حلقہ بندیاں ضروری ہیں، الیکشن میں تاخیر سے سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ ن کو ہوگا۔ جبکہ نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ فرما رہے ہیں کہ عام انتخابات سینیٹ انتخابات سے قبل ہوجانے چاہئیں۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہم فیصلہ نہیں کر پاتے کہ ہمیں پہلے کیا کرنا ہے اور وقت ہم سے کس بات کا تقاضا کر رہا ہے۔ انتخابات کے بروقت انتخاب میں کوئی کلام نہیں ساتھ ہی اگر حلقہ بندیوں کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں، یہ بھی عوام کی حق تلفی کے مترادف ہوگا۔ سیاسی رہنما اس معاملے کو سیاسی بصارت کے مطابق حل کریں تو یہ ملک کیلئے بہتر ہوگا۔ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کو چاہئے کہ وہ انتخابات کے معاملے میں تمام جماعتوں کے ساتھ ایک کانفرنس کا اہتمام کرے اور اس میں تمام حالات سامنے رکھ کر ایک مشترکہ تاریخ کا اعلان کرے جو سب کیلئے قابل قبول ہو تاکہ ملک مزید کسی بحران کا شکار نہ ہو۔