
ملک اس وقت عملی طور پر نگرانوں کے دور سے گزر رہا ہے۔ ویسے تو آئین میں اس دور کی طوالت٬ کثافت وغیرہ کے بارے میں تمام ہدایات لکھی ہوئی ہیں۔ تاہم اب پاکستان کے تمام مایہ ناز صحافی اور با خبر ذرائع اس بات کا اشارہ کررہے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری پہلے ہی نگران وزیر اعلی’ پنجاب سے خوش نہیں کیونکہ و ہ تو پرفارمنس میں شہباز شریف کے مقابلے میں آگئے ہیں۔ اب جاوید چوہدری بھی اسی حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہماری سیاسی قیادت کسی قابل‘ اہل اور سمجھ دار شخص کو نگران وزیراعظم بنانے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتی‘یہ تین چار ماہ کے لیے بھی گونگے‘ بہرے اور کمپرومائزڈ شخص کا انتخاب کرتے ہیں‘اس بار بھی یہی ہو رہا تھا‘ پی ڈی ایم کم زور ترین نگران وزیراعظم تلاش کر رہی تھی تاکہ ان کی واپسی کی گنجائش پیداہو سکے۔
یہ محسن نقوی جیسا تجربہ نہیں دہرانا چاہتے تھے‘ آپ کو یقیناً معلوم ہو گا آصف علی زرداری اور نواز شریف نے محسن نقوی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ اس لیے بنوایا تھا کہ یہ 12 کروڑ لوگوں کا صوبہ نہیں چلا سکیں گے‘ یہ بارہ بجے اٹھیں گے‘ دفتر جائیں گے۔
دوستوں کے ساتھ گپ لگائیں گے‘ دو چار ارب روپے کمائیں گے اور گھر چلے جائیں گے مگر نتیجہ الٹ نکلا‘محسن نقوی نے دن رات ایک کر دیا‘ یہ ازبکستان سے کپاس کا نیا بیج تک لے آئے ‘ انھوں نے سات ماہ میں شہباز شریف کی اسپیڈ کو مات دے دی لہٰذا انھیں بنانے والے آج پچھتا رہے ہیں۔
میرا خیال ہے انوارالحق کاکڑ کے معاملے میں بھی یہی ہوا ‘یہ آسمان سے نازل ہو چکے ہیں اور یہ بھی محسن نقوی کی طرح تینوں سیاسی جماعتوں کو ٹھیک ٹھاک ٹکر دیں گے اور اگر ایسا ہو گیا تو الیکشن بھی نہیں ہوں گے اور سیاسی جماعتوں کی واپسی بھی مشکل ہو جائے گی۔
یہ حقیقت ہے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو اس وقت ایک ایسی حکومت چاہیے جو شہباز شریف اور عمران خان کی حکومتوں سے بھی بری ہو تا کہ یہ ایک بار پھر اقتدار میں آ سکیں‘ انھیں محسن نقوی جیسے لوگ سوٹ ہی نہیں کرتے چناں چہ اگر انوارالحق کاکڑ بھی محسن نقوی ثابت ہو گئے تو پھر کیا ہوگا؟آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔