تازہ ترینخبریںسپیشل رپورٹ

قائداعظم کی نماز جنازہ 1 دفعہ ادا کئ گئی یا 2 دفعہ ؟ آخر معاملہ کیا تھا ؟

مؤرخین کا اصرار ہے کہ 11 ستمبر 1948 کو انتقال کے بعد محمد علی جناح کی نماز جنازہ صرف ایک مرتبہ ادا کی گئی اور یہ نماز اہل سنت کے طریقے سے مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی مگر بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ بانی پاکستان کی نماز جنازہ دو مرتبہ ادا کی گئی، ایک مرتبہ اہل تشیع کے طریقے سے اور دوسری مرتبہ اہل سنت کے طریقے سے۔

ان مؤرخین کے مطابق اہل تشیع کے طریقہ سے ادا کی گئی نماز جنازہ کی امامت کا فریضہ مولانا سید انیس الحسنین رضوی نے ادا کیا تھا۔محمد علی جناح سے نیاز مندانہ مراسم رکھنے والے مولانا انیس الحسنین رضوی کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح نے ان سے اثنا عشری طریقے سے تجہیز و تکفین کے لیے کہا تھا۔

محمد علی جناح کے انتقال کے چار روز بعد سید انیس الحسنین نے صغیر حسن نقوی کو جو خط تحریر کیا اس میں لکھا گیا کہ ’یہ 11 اور 12 ستمبر کی درمیانی رات تھی۔ میں اپنے گھر میں سو رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی، میں نے دروازہ کھولا تو بتایا گیا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا انتقال ہو گیا ہے اور محترمہ فاطمہ جناح نے مجھے گورنر جنرل ہاؤس بلایا ہے۔‘

میں سرکاری گاڑی میں گورنر جنرل ہاؤس پہنچا تو فاطمہ جناح نے بیگم نصرت عبداللہ ہارون کے ذریعے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں قائد اعظم کے غسل اور تکفین کا بہ طریقہ شیعہ اثنا عشری انتظام کروں اور بعدازاں ان کی نماز جنازہ بھی پڑھاؤں۔‘

انیس الحسنین کے مطابق انھوں نے کھارادر میں واقع بڑے امام باڑہ پہنچ کر حاجی ہدایت اللہ عرف حاجی کلو غسال کو جگا کر قائد اعظم کی وفات کی خبر دی اور فاطمہ جناح کی خواہش سے آگاہ کیا جس کے بعد ’حاجی کلو نے خوجہ اثنا عشری جماعت کے صدر سیٹھ رحیم چھاگلہ اور سیکریٹری عبدالرسول کو اطلاع کر کے ان کی اجازت سے غسل اور کفن کا تمام سامان فراہم کیا اور حاجی کلو، سیٹھ رحیم چھاگلہ اور عبدالرسول میرے ساتھ گورنر جنرل ہاؤس واپس روانہ ہو گئے۔‘

وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’گورنر جنرل ہاؤس پہنچنے کے بعد قائد اعظم کے کمرے سے ملحق غسل خانے میں حاجی کلو اور ان کے مددگاروں نے اثنا عشری طریقے کے مطابق قائد اعظم کی میت کو غسل دیا اور کفن پہنایا۔ اس کے بعد میں نے قائد اعظم کے کمرے میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں کراچی کے ایڈمنسٹریٹر ہاشم رضا، کراچی کے انسپکٹر جنرل پولیس سید کاظم رضا، سندھ کے وزیراعلیٰ یوسف ہارون، آفتاب پسر حاتم علوی اور حاجی کلو وغیرہ نے شرکت کی۔‘

انیس الحسنین نے اپنے خط میں مزید لکھا کہ ’اس کے بعد میت کو راہداری میں رکھ دیا گیا تاکہ عوام الناس آخری دیدار کر سکیں۔۔۔۔ یہاں تک کہ دن نکل آیا اور میت علموں کے سائے میں (جو بڑا امام باڑہ کھارادر سے اسی غرض سے لائے گئے تھے) فوجی گاڑی پر مقام تدفین کی طرف روانہ ہوئی جہاں لاکھوں آدمیوں نے علامہ شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں دوبارہ نماز جنازہ ادا کی۔

قائداعظم کی تدفین کے بعد مولوی سید غلام علی احسن مشہدی اکبر آبادی نے بہ طریقہ شیعہ اثنا عشری تلقین بھی پڑھی تھی۔ تلقین پڑھائے جانے کے بعد قبر پر وزیر اعظم پاکستان، وفاقی وزرا اور اسلامی ممالک کے سفیروں نے مٹی دی۔ بعدازاں ہزاروں انسان سورۂ فاتحہ پڑھنے کے بعد منتشر ہو گئے۔‘

پہلی نماز جنازہ میں شریک کراچی کے ایڈمنسٹریٹرسید ہاشم رضا نے محمد وصی خان کے نام لکھے گئے اپنے ایک مکتوب اور پھر اپنی خودنوشت سوانح عمری ’ہماری منزل‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’میں قائد اعظم کی اس نماز جنازہ میں شامل تھا جو مولانا سید انیس الحسنین رضوی نے پڑھائی تھی۔ یہ نماز اس کمرے میں ادا کی گئی تھی جو گورنر جنرل ہاؤس کے جنوبی زیریں حصے میں ہے۔ اس نماز جنازہ میں میرے برادر بزرگ سید کاظم رضا اور یوسف ہارون بھی شریک تھے۔‘

بیگم نصرت عبداللہ ہارون نے پانچ اکتوبر 1972 کو محمد وصی خان کے نام لکھے گئے ایک خط میں تحریر کیا کہ ’میں تصدیق کرتی ہوں کہ 11 اور 12 ستمبر کی درمیانی رات تین بجے میں نے مولانا سید انیس الحسنین رضوی کو گورنر جنرل ہاؤس بلایا اور فاطمہ جناح نے مولانا سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی مراسم تجہیز وتکفین بہ طریقہ شیعہ اثنا عشری ادا فرمائیں۔‘

بیگم نصرت نے مزید لکھا ’پس تمام مراسم غسل و کفن مولانا موصوف کی نگرانی میں انجام پائے۔ بعد نماز صبح مولانا موصوف نے نماز میت بہ طریق شیعہ اثنا عشری پڑھائی، اس نماز میں سید ہاشم رضا، سید کاظم رضا، آفتاب پسر حاتم علوی اور کئی آدمی شریک ہوئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button