تازہ ترینخبریںسیاسیات

عمران خان جیل میں پریشان یا پرسکون؟ ذرائع کے ساتھ ہرچینل،صحافی کی اپنی کہانی

جب سے سابق وزیر اعظم عمران خان جیل میں پہنچے ہیں ان کے جیل کو لے کر رویئے سے متعلق کئی خبریں آرہی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہر چینل اور ہر صحافی بظاہر اپنی سیاسی وابستگی کے مطابق عمران خان کے جیل میں رویئے کے بارے میں بتا رہا ہے اور ایسے میں ناظرین و قارئین کنفیوز ہیں کہ آیا عمران خان جیل میں شدید پریشان ہیں یا وہ مطمئن ہیں اور جیل مینول کی روکھی سوکھی کھا کر کسی پہنچے ہوئے فقیر کی طرح دنیا و مافیہا سے بے غرض لمبی تان کے سو جاتے ہیں یا انکو فرمائشی کھابے مل رہے ہیں۔ اور پھر یہ بھی کہ آیا انکی جیل میں کیڑے مکوڑے ہیں یا وہ خلوت سے لطف اندوز ہو کر گہرے مطالعے میں مصروف رہتے ہیں۔
مثال کے طور پر جیو نیوز کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر کے مطابق” ذرائع کا کہنا ہےکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان جیل میں رہنے پرپریشان اورناخوش ہیں۔ جیل ذرائع کے مطابق عمران خان نے گزشتہ روز وکلا سے میٹنگ میں کہا کہ مجھے باہر نکالو، جیل میں نہیں رہنا چاہتا”۔ جبکہ ایکسپریس نیوز کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر کے مطابقجیل ذرائع کے مطابق گزشتہ شب جیل پہنچنے پر چیئرمین پی ٹی آئی نے نماز عشاء ادا کی اور رات کا کھانا جیل کا تیار کیا ہوا کھایا۔ کچھ وقت سونے کے بعد رات کے آخری پہر نماز تہجد کے لیے اٹھے اور نماز فجر ادا کرنے کے بعد جیل کا مہیا کردہ ناشتہ کیا جس میں ڈبل روٹی کے سلائس، مکھن، فرائی اور ابلا ہوا انڈہ و چائے شامل تھی۔ جبکہ صحافی ہارون الرشید نے 92 نیوز کو بتایا کہ کپتان تو جیل کی روکھی سوکھی دال روٹی کھا کر مرد قلندر کی مانند لمبی ستان کر سوجاتا ہے۔ ایکسپریس کی کہانی کے مطابق جیل ذرائع کا کہنا تھا کہ جیل میں پہلی رات و پہلے دن چیئرمین پی ٹی آئی کچھ بے چین ضرور رہے تاہم انہوں نے کسی قسم کی شکایت نہیں کی اور مورال کو ہائی رکھتے دکھائی دیے اور انہیں پر سکون دیکھا گیا۔ اب یہ ملاحظہ کریں، بول نیوز کی خبر کے مطابق گرفتاری کے دوران پولیس افسران نے عمران خان سے کہا کہ ہماری آپ سے دشمنی نہیں ہے بلکہ ہم تو آپ کے فین ہیں جبکہ ہم تو اپنا فرض پورا کر رہے ہیں۔ دوسری جانب جاوید چوہدری کے مطابق جب عمران خان نے پولیس حکام سے مکالمہ کیا کہ انہیں غیر قانونی طور پر حراست میں لیا جا رہا ہے تو پولیس اہلکاروں نے انہیں آئینہ دیکھا دیا اور انکے دور کی کرپشن کے حوالے سے طعنے دیئے جس پر وہ حیران رہ گئے۔
پاکستان میں صحافتی کوریج کی اس متنازع شکل نے خود صحافتی اداروں اور صحافت کے میدان کے بڑے ناموں کی کریڈیبلٹی پر سوالیہ نشان اٹھایا ہے۔ ایسے میں ناظرین کو یہ واضح ہے کہ کونسا صحافی کس طرف کھڑا ہے اور کونسا چینل کس مفاداتی گروہ کی مالش میں مصروف ہے۔ ذرائع کی آڑ میں اب سیاسی و مالی ایجنڈے کی ترویج عام ہے ایسے میں عوام کنفیوز ہونے کے ساتھ ساتھ ان نیوز چینل سے اکتا چکے ہیں۔ مستقبل میں صحافت کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے؟ صحافی خود سوچیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button