
پاکستان کے معروف صحافی جاوید چودھری کے مطابق عمران کو جب پولیس زمان پارک سے گرفتار کر کے ائیرپورٹ لے گئی تو وہاں پر پولیس اہکار اور چئیر مین تحریک انصاف کے درمیان ایک دلچسپ مکالمہ پیش آیا ۔
جس میں عمران خان نے سوال کیا کہ میں نے کون سا جرم کیا؟ میں ملک کا وزیر اعظم رہا ہوں، میرے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے۔
جاوید چوہدری کے مطابق اس طرح کی کافی لمبی تقریر عمران خان نے کی جس پر پولیس والوں نے کہا کہ
"سر آپ کس انصاف کی بات کر رہے ہیں؟ آپ کے دور میں ہمارے ساتھ بہت ناانصافیاں ہوئیں۔ آپ کے دور حکومت میں کئی اہلکار مارے گئے۔ کوئی منسٹر جنازے میں شریک نہ ہوا، کسی نے تعیزت تک نہ کی ”
ایک ایس ایس پی نے کہا کہ آپ کی حکومت میں مجھے تین صوبوں میں ٹرانسفر کیا گیا، کیونکہ میں کسی سے پیسے نہیں لیتا تھا یا آپ کی پارٹی کے ترانے نہیں لکھتا تھا۔ اور یہ آپ یقین کریں میں قسم کھانے کے لئے تیار ہوں، ہر صوبے میں پہلے سے زیادہ کرپشن ہو رہی تھی۔ اس زمانے میں کسی کے ساتھ بھی کسی قسم کا انصاف نہیں ہو رہا تھا تو اب آپ کس انصاف کی بات کر رہے ہیں؟
پولیس والوں نے عمران خان کے سامنے کرپشن کی کہانیوں کے انبار لگا دیے۔ یہ سب کچھ عمران خان کے لئے بہت حیران کن تھا۔ پولیس والوں نے لاہور میں پولیس کی ٹرانسفر پوسٹنگز کے ریٹس کے بارے میں بھی بتایا۔
یہ سب سننے کے بعد عمران خان نے حیران ہو کر پوچھا کیا واقعی یہ سب ہو رہا تھا؟
اسی دوران آرڈر آیا کے عمران خان کو جہاز کی بجائے بذریعہ روڈ اسلام آباد منتقل کیا جائے، اس کے بعد آپ کو معلوم ہی ہے کہ عمران خان کو اٹک جیل پہنچا دیا گیا۔
جیل میں عمران خان کے ساتھ تین ایسے واقعات ہوئے جسے کی وہ توقع نہیں کر رہے تھے۔ ایک تو یہ کہ انہیں ان کی مرضی کا کھانا نہیں دیا گیا، انہیں جیل کا کھانا کھانا پڑا۔ دوسرا یہ کہ انہیں ایک سابق وزیر اعظم کے شایان شان کمرہ نہیں دیا گیا۔ تیسرا یہ کہ وہ اپنے وکلا سے ملنا چاہتے تھے، ان سے بھی انہیں نہیں ملنے دیا گیا۔
جاوید چوہدری کے مطابق مجھے عمران خان کی ضمانت ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اگر ہوئی بھی تو نیب میں ایک تیار شدہ کیس میں انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا۔ نیب کی نئی ترامیم کے تحت تیس دن تک نیب انہیں اپنے پاس زیر حراست رکھ سکے گا۔ اور تیس دن کے بعد بھی نیب اس قید کو بڑھا سکتا ہے۔