
جاوید چودھری کے بیان کے مطابق جب جج ہمایوں دلاور نے فیصلہ سنایا تو یہ سب کے لئے سرپرائز تھا کہ اب کیا ہوگا کیوں کہ ابھی تک یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ عمران خان بنی گالہ میں ہیں یا زمان پارک میں۔ جب تصدیق ہو گئی کہ عمران خان زمان پارک میں ہیں تو فوری طور پر 3 ڈی آئی جیز کو طلب کیا گیا اور کہا گیا کہ عمران خان کو ہر صورت گرفتار کر کے راولپنڈی یا اسلام آباد منتقل کیا جائے۔ ان میں سے ایک ایس ایس پی کا تعلق یونیفارمڈ فورس میں سے نہیں تھا۔ انہیں خصوصی طور پر اس لئے ساتھ بھیجا گیا تھا کہ وہ یقینی بنائیں کہ عمران خان کے ساتھ کوئی مس ہینڈلنگ نہ ہو۔
150 اہلکاروں کے ساتھ پولیس زمان پارک پہنچی۔ ان میں کچھ ایسے اہلکار بھی تھے جو بلٹ پروف دروازے توڑ سکتے تھے۔ جب پولیس زمان پارک پہنچی تو گیٹ پر عمران خان کے گارڈز ہیوی ویپنز کے ساتھ کھڑے تھے۔ پولیس نے انہیں کہا کہ آپ اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں اور ہم اپنی۔ ہم آپ کو کورٹ کے آرڈر دکھاتے ہیں اس کے باوجود اگر آپ مزاحمت کریں گے تو یہ کار سرکار میں مداخلت ہوگی اور آپ کو گرفتار کیا جائے گا اور اس کے بعد لمبی سزائیں ہوگی۔ یہ سننا تھا کہ گارڈز نے پولیس کو راستہ دے دیا۔
لیکن اندر موجود ایک گارڈ نے دروازہ نہ کھولا، پھر پولیس نے انہیں بھی اسی طرح سمجھایا تو دروازہ کھل گیا اور پولیس لان سے ہوتی ہوئی عمران خان کے بیڈ روم کے باہر پہنچ گئی۔ وہاں بھی چند گارڈز کلاشنکوف تھامے کھڑے تھے۔ یہاں بھی پولیس نے وہی سب کہا جو وہ پہلے والے گارڈز کو سمجھا کر یہاں تک پہنچے تھے۔
ایک ڈی آئی جی نے دروازے پر دستک دی اور کہا کہ ہم صرف عدالتی کارروائی پوری کرنے آئے ہیں ہماری آپ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے، یہ کہنے کے بعد پھر دروازے پر دستک دی گئی مگر اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ ڈی آئی جی صاحب پیچھے ہٹے اور اہلکاروں نے دروازہ توڑنا شروع کر دیا۔ جب دروازہ ٹوٹنے کے قریب تھا تو اندر سے ایک خاتون نے آواز دی کہ آپ اہکاروں کو پیچھے ہٹنے کا کہیں ہم دروازہ کھول رہے ہیں۔
دروازہ کھلا اور پولیس نے کمرے میں قدم رکھا تو بشریٰ بی بی برقع پہنے کھڑی تھیں اور ان کے پیچھے عمران خان صاحب کھڑے تھے۔
بشریٰ بی بی نے پولیس اہلکاروں سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ کیا طریقہ کار ہے کسی کو گرفتار کرنے کا؟ آپ ایسے کسی کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اگر آپ نے خان صاحب کو گرفتار کرنا ہی تھا تو اس کے لئے ایک باعزت طریقہ کار اختیار کیا جا سکتا تھا۔ ڈی آئی جی صاحب نے بشریٰ بی بی کو جواب دیا کہ آپ ہماری بڑی بہن ہیں، ہم صرف عدالت کے احکامات پر عمل درآمد کروا رہے ہیں۔
بشریٰ بی بی نے پولیس کے سامنے یہ شرط رکھی کہ آپ نہ ہمارے گھر کی تلاشی لیں گے اور نہ ہی کسی قسم کی توڑ پھوڑ کریں گے، پولیس نے شرط مان لی اور بشریٰ بی بی پیچھے ہٹ گئیں۔
پولیس نے عمران خان کو اپنے ساتھ لیا وہ اس وقت ٹریک سوٹ میں تھے۔ ان کے ہاتھ میں نہ موبائل تھا اور نہ ہی تسبیح، پولیس نے تیزی سے عمران خان کو دروازے سے باہر نکالا اور گاڑی میں بٹھا کر زمان پارک سے روانہ ہو گئے۔
عمران خان کے منہ پرکالا کپڑا ڈالا گیا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی بدتمیزی کی گئی۔ عمران خان کو ائیر پورٹ پہنچا کر ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ ان سے کچھ کھانے پینے کے لئے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں لنچ کر کے آیا ہوں، صرف پانی کی بوتل دے دیں۔ پولیس نے پھر پوچھا کہ کوئی بھی چیز چاہیے تو وہ بھی بتائیں۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ میرے گھر میں ایک کٹ ہے وہ منگوا دیں۔
پولیس چونکہ زمان پارک میں موجود تھی، ایس ایس پی نے انہیں فون کر کے یہ کٹ لانے کو کہا۔ پولیس اہلکار اندر گیا تو بشریٰ بی بی نے اسے شیونگ کٹ اور کپڑوں کا بیگ تھما دیا جو پہلے سے ہی تیار تھا۔ اہلکار سامان لے کر ایئر پورٹ پہنچ گیا۔
پھر عمران خان کو جہاز کی بجائے بذریعہ روڈ اسلام آباد منتقل کیا جائے، اس کے بعد آپ کو معلوم ہی ہے کہ عمران خان کو اٹک جیل پہنچا دیا گیا۔