کہا جاتا ہے کہ کسی آدمی کونہیں بلکہ اسکے عہدے کو سلام ہوتا ہے۔ جنرل باجوہ کے حوالےسے یہ بات اور صائب محسوس ہوتی ہے۔ جونہی وہ اپنے عہدے سے اترے ہیں، ملک کے بڑے بڑے صحافی جو راز اپنے سینوں میں دبائے بیٹھے تھے اب اگلنا شروع ہوگئے ہیں۔ تازہ ترین پیشرفت میں حامد میر نے یہ انکشاف کیا ہے جنرل باجوہ پر اس وقت ایک ایف آئی آر ہوئی جب وہ آرمی چیف تھے۔ اور ایف آئی آر بھی ایک فراڈ کی۔ یہ ایف آئی آر ملک کے طاقتور ترین عہدہ دار کے خلاف تھی یہ کیسے ہوگئی؟ اس پر بھی انہوں نے ایک معنی خیز اشارہ دیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ باجوہ اور عمران خان کی لڑائی ہو جائے گی۔ ایک دن عثمان بزدار کے ایک قریبی ساتھی نے مجھے سیالکوٹ کے ایک تھانے میں فراڈ اور غبن کی ایک ایف آئی آربھیجی، اس ایف آئی آر میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام لیکر ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے کوئی ٹھیکہ دلوانے کیلئے 25لاکھ روپے وصول کئے لیکن ٹھیکہ نہیں دلوایا لہٰذا 25لاکھ روپے واپس دلوائے جائیں۔ ایف آئی آر کا متن صاف بتا رہا تھا کہ یہ باجوہ صاحب کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہے کیونکہ آرمی چیف اتنے چھوٹے موٹے کاموں میں ملوث نہیں ہو سکتا۔
میں نے یہ ایف آئی آر باجوہ کے ایک ساتھی کو بھجوائی تو انہوں نے اسے جھوٹ قرار دیدیا لیکن جب ان سے پوچھا کہ آرمی چیف کے خلاف ایف آئی آر کیسے درج ہو گئی تو ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔پھر یہ ایف آئی آر سیل ہو گئی اور سیالکوٹ پولیس کے اعلیٰ افسران کی جواب طلبیاں شروع ہو گئیں لیکن مجھے یہ سمجھ آ گئی کہ باجوہ اور عمران خان میں تنازع شروع ہو چکا ہے اور اس کی اصل وجہ عثمان بزدار ہیں۔ خان صاحب نے عثمان بزدار کا بھرپور دفاع شروع کر دیا اور وہ ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر کہا کرتے تھے کہ یہ ہمارا وسیم اکرم پلس ہے۔باجوہ صاحب نے اس وسیم اکرم پلس کی کرپشن کے بارے میں خان صاحب کو بتایا تو وہ کہتے آپ پہلے شہباز شریف اور آصف زرداری کی کرپشن پکڑیں پھر بزدار کی طرف آئیں۔
آرمی چیف ہوتے ہوئے جنرل باجوہ کا نام ایف آئی میں کیسے آیا، یہی اصل سوال ہے۔