پاک چائنا گوادر یونیورسٹی "لاہور "میں بنے گی ، سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی

پاکستان کی قومی اسمبلی نے جن 24 جامعات کے قیام کا بِل پاس کیا ہے ان میں ایک ’پاک چائنا گوادر یونیورسٹی‘ بھی شامل ہے اور اس یونیورسٹی کا نام اس وقت سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث ہے۔
متعدد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ ’پاک چائنا یونیورسٹی‘ کو صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں کیوں قائم کیا جا رہا ہے؟
صحافی و اینکرپرسن حامد میر نے بھی بدھ کو اپنی ایک ٹویٹ میں قومی اسمبلی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’کیا کسی نے یہ پوچھا کہ گوادر کے نام پر لاہور میں یونیورسٹی کیوں بنائی جا رہی ہے؟
ساحل چانڈیو نامی صارف نے کہا کہ ’بلوچوں کو اور کیا چاہیے؟ پاک چائنا گوادر یونیورسٹی لاہور میں بنے گی۔ حکومت چاہتی تو اس یونیورسٹی کا نام کچھ اور بھی رکھ سکتی تھی۔‘
اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق پروفیسر انور اقبال نے لکھا کہ سی پیک کے تحت قائم ہونے والی یونیورسٹی کو لاہور منتقل کیے جانا قابلِ مذمت ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’اس یونیورسٹی کو گوادر میں ہی قائم ہونا چاہیے۔‘
ٹوئٹر پر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ’پاک چائنا گوادر یونیورسٹی‘ اگر لاہور میں بنائی جا رہی ہے تو اس میں کوئی بُرائی نہیں۔
امینا زرین لکھتی ہیں کہ ’سری نگر ہائی وے اسلام آباد میں بن سکتی ہے تو گوادر یونیورسٹی لاہور میں کیوں نہیں؟‘
سردار علی نامی صارف نے کہا کہ ’پنجاب کا وزیراعلیٰ (عثمان) بزدار بلوچ بن سکتا ہے تو لاہور میں گوادر یونیورسٹی کیوں نہیں بن سکتی؟‘