Column

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی

ضیاء الحق سرحدی

حکومت نے ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کرتے ہوئے پٹرول 8روپے لٹر، ہائی سپیڈ ڈیزل 5روپے لٹر سستا کر دیا تا ہم مٹی کے تیل کی قیمتیں برقرار رکھی گئی ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ دنوں میں دوسری بار کمی کا اعلان کیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کمی کا عام عوام کو ایک پیسے کا فائدہ نہیں ہوا کیونکہ تیل کی قیمتوں میں جب بھی معمولی یا زیادہ اضافہ کیا جاتا ہے تو ٹرانسپورٹرز اس سے فوراً فائدہ اٹھا کر نہ صرف اشیائے صرف کی نقل و حمل کیلئے استعمال ہونے والی ٹرانسپورٹ یعنی کنٹینرز، ٹرک وغیرہ کے کرائے بڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے اشیا ء مہنگی ہو جاتی ہیں بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی راتوں رات بڑھا دئیے جاتے ہیں اور مسافروں کی لوٹ مار شروع کر دی جاتی ہے تاہم پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا محولہ دونوں شعبوں کے ٹرانسپورٹ کرایوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ صرف بار برداری ٹرانسپورٹ بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہوئے کرائے جوں کے توں رکھے جاتے ہیں، یوں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے، اس ضمن میں متعلقہ سرکاری عمال پر اسرار خاموشی اختیار کئے رکھتے ہیں اور عوام لٹتے رہتے ہیں ، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دوبار نمایاں کمی کے بعد اس کا فائدہ عوام تک منتقل کرنے کا بھی اہتمام کیا جائے ، متعلقہ سرکاری حکام نہ صرف بار برداری ٹرانسپورٹ کے کرایوں کا تعین کریں بلکہ عوامی سفر کیلئے استعمال ہونے والی ہر قسم کی ٹرانسپورٹ کے مختلف مختلف روٹس پر کرائے مقرر کر کے ان پر سختی سے عمل در آمد کو ممکن بنائیں تا کہ عوام کو کچھ تو ریلیف ملئے خاص طور پر اشیائے صرف اور دیگر چیزوں کی نقل و حمل پر اخراجات میں کمی سے متعلقہ تاجروں اور دکانداروں کی جانب سے بھی اخراجات میں کمی کا فائدہ عوام کو دینے میں ولعل سے کام لیا جاتا رہے گا تو اس حوالے سے حکومت کو ریلیف دینے کے دعوے بھی نہ کرے ، ساتھ ہی جس طرح حالیہ دنوں میں یہ دعوے سامنے آئے کہ سمندر میں تیل کے ذخائر دریافت کرنے اور گیس کے بند کنوئوں کو فعال کر کے گیس کی تلاش کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں تو اس منصوبے پر بھی عمل کو مزید تاخیر کا شکار نہ کیا جائے کیونکہ گیس کے ذخائر کے ساتھ تیل بھی ان کنوئوں سے حاصل کیا جاتا ہے جبکہ دیگر ممالک سے بھی روس کے ساتھ سستے تیل کے معاہدے کی طرح آگے بڑھا جائے اور مزید سستا تیل درآمد کر کے عوام کو آسانیاں فراہم کی جائیں۔ اب تو وفاقی حکومت نے بھی روس کے ساتھ مال کے بدلے مال بارٹر ٹریڈ کا اعلان کر دیا ہے۔ منافع خور مافیاز کو جب تک حکومتی سطح پر سختی سے ہینڈل نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک وہ عوام کو ریلیف منتقل نہیں کریں گے جبکہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود بھی تاحال عوام کا بوجھ کم نہیں کیا جاسکا ہے۔ ڈیزل اور پیٹرول کے نرخ میں کمی کرنے کے باوجود بھی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایہ، اشیائے خورونوش کی قیمتوں کے ساتھ ساتھ دیگر چیزوں اور ساز و سامان کے نرخوں میں کمی لانے کا اعلان نہیں کیا گیا ہے اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس پر خاموشی اختیار کر لی گئی ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو کسی قسم کا ریلیف نہیں ملا ہے اس حوالے سے سخت کارروائی کی بجائے وفاقی حکومت نے تاجروں اور ٹرانسپورٹرز سے درخواست کی ہے جس پر کوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ دوسری جانب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی اضافہ کے بعد بھی ٹرانسپورٹرز کی جانب سے کرایہ میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اشیاء خورونوش کی قیمتیں بھی راتوں رات بڑھا دی جاتی ہیں۔ اس وقت ملک کی مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ انتظامی مشینری کا عدم تعاون اور اپنی ذمہ داریوں سے انحراف ہے جبکہ مہنگائی میں کمی کی خاطر اگر مجسٹریسی نظام دوبارہ لانے کی ضرورت ہے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ حکومت بار بار مجسٹریسی نظام لانے کا کہہ رہی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اب تک حکومت اس میں بُری طرح نا کامیاب ہے، وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ ازخود نوٹس لیں اور اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کریں کہ عوام کو ریلیف دیا جا سکے حالانکہ دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے مختلف پالیسیاں نافذ ہیں۔ ملائیشیا جیسے ممالک تیل درآمد کرتے ہیں۔ پھر تیل پر سبسڈی دے کر عوام کو کم نرخوں پر فراہم کرتے ہیں۔ اس کا اثر وہاں کی معیشت پر بہت اچھا رہا ہے۔ ان حالات میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی گنجائش پوری طرح عوام کو منتقل نہیں کی جا رہی۔ یقینا ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ اس قدر بھاری نہ ہوتا تو حکومت کے لئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مزید کم کرنا ممکن ہو سکتا تھا۔ حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے بعد ان سرکاری اداروں کو فوری طور پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے جو پبلک اور گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی اور اس کمی پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہیں۔ برسہا برس سے یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ٹرانسپورٹرز نے محکمہ ٹرانسپورٹ میں اپنے حامی افسروں کے ذریعے ایسا نیٹ ورک بنا رکھا ہے جو حکومت کے فیصلوں کا ثمر عوام تک پہنچنے سے روکتا ہے۔ پاکستان جن معاشی مشکلات کا شکار ہے وہاں حکومت سے بہت زیادہ مالی مراعات کا تقاضا ممکن نہیں تاہم جو فیصلے سوچ بچار کے بعد کئے جا رہے ہیں ان پر عملدرآمد میں کوتاہی دکھائی دے تو قیمتوں میں کمی کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو پٹرول کی قیمت میں کمی اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق روپے کی قدر گھٹ رہی ہے جبکہ ڈالر اونچی اڑان بھر رہا ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور غریب کے لئے جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ حکومت اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچنا چاہتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ٹرانسپورٹرز سے کرائے کم کر وائے تاکہ عملی طور پر عام آدمی کے روزمرہ اخراجات میں کمی واقع ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو عوام پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے بجلی اور تیل کے نرخوں میں بین الاقوامی مارکیٹ کے حساب سے کمی کرنی چاہئے کیونکہ پاکستانی عوام پہلے سے مہنگائی، بے روزگاری اور دوسرے مسائل کی وجہ سے انتہائی پریشان ہیں اور ان کو مزید تنگ اور پریشان نہیں کرنا چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button