Columnمحمد مبشر انوار

قومی مفادات اور رد عمل

محمد مبشر انوار(ریاض)

اقوام عالم میں بدلتے ہوئے حالات ہر لمحہ نئے لائحہ عمل کے متقاضی ہیں اور عالمی برادری کے حکمران بالعموم جبکہ مشرق وسطیٰ کے حکمران بالخصوص ان حالات میں قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے، اپنی ترجیحات کا تعین از سر نو کرنے میں مصروف ہیں۔ نئی ترجیحات کے تعین میں ان حکمرانوں کے سامنے فقط ملک و قوم کے مفادات ہیں جن کے حصول میں وہ ماضی کے پرجوش تعلقات کو پس پشت ڈال کر، موجودہ حالات کے مطابق اپنی نئی صف بندیاں کر رہے ہیں تا کہ وہ اپنے ملک و قوم کے مستقبل کا تحفظ بخوبی کر سکیں۔ انقلاب ایران کے بعد، عالمی تھانیدار نے علاقائی سطح پر اپنے مفادات کا تحفظ کرنے والی ریاست ایران سے تعلقات میں سرد مہری کی بجائے سخت ترین رویہ اختیار کرتے ہوئے، ایران کو مسلسل دیوار سے لگانے کا عمل جاری رکھا جبکہ یہاں سعودی عرب کا کردار از سر نو متعین ہوا۔ ریاستوں کے اس نئے کردار میں دو اسلامی ریاستوں سعودی عرب اور ایران کے درمیان اختلافات کی خلیج دانستہ تعمیر کی گئی اور ان اختلافات کو دہائیوں تک مسلسل مضبوط کیا گیا کہ خدانخواستہ اسلامی رشتے کی بنیاد پر یہ دو ریاستیں مل نہ سکیں اور نہ ہی عالمی تھانیدار کے مفادات کے خلاف جا سکیں، تاہم ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں کے مصداق، دنیا کی اکلوتی عالمی طاقت کے افغانستان میں سینگ پھنسانے کے باعث، نہ صرف پاکستان کو ایٹمی قوت بننے کا موقع میسر آیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ، چین بھی انتہائی مستقل مزاج اور خاموشی کے ساتھ اپنی معاشی حیثیت کو مستحکم کرتا رہا اور دفاعی اعتبار سے بھی خود کو مضبوط بناتا رہا۔ یہاں اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ روس کی افغانستان میں مداخلت اور پاکستان کا اس جنگ میں شامل ہونا بہرکیف مجموعی طور پر پاکستان کے حق میں رہا جس کا کریڈٹ بہرحال جنرل ضیاء الحق کو جاتا ہے جس نے امریکہ کو اس جنگ میں شامل ہونے پر مجبور کیا اور اس آڑ میں جو سہولت ؍ وقت پاکستان کو میسر ہوا، اس میں پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کی تکمیل میں کامیاب ہو گیا، حالانکہ یہ وہ منصوبہ تھا کہ جس کی پاداش میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر جھولنا پڑا لیکن افغانستان کے معروضی حالات اور امریکی انتقام کی آگ نے، امریکہ کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر آنکھیں بند رکھنے پر مجبور کر دیا۔ بد قسمتی دیکھئے کہ اتنے مصائب کے بعد حاصل ہونے والی اس دفاعی صلاحیت کو موجودہ حکمران اپنے اللے تللوں کے باعث ملکی معیشت کو قرضوں کے بوجھ میں دبانے کے بعد، انتہائی بے شرمی کے ساتھ بین السطور یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیںکہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے پاس اربوں کھربوں ڈالر کے اثاثے موجود ہیں، تف ہے ایسی سوچ اور ایسے عمل پر، جو صرف ایسے حکمرانوں سے بعید ہے کہ جن کے نہ صرف اپنے اربوں کھربوں ڈالر کے اثاثے بیرون ملک موجود ہیں، جو ملکی وسائل لوٹ کر بنائے گئے ہیں بلکہ وہ پاکستان صرف اقتدار سے محظوظ ہونے اور مزید لوٹ مار کے لئے آتے ہیں وگرنہ انہیں پاکستان سے کوئی خاص محبت یا لگائو قطعی دکھائی نہیں دیتا کہ ان کا عمل ان کے قول سے زیادہ واضح ہے، اس پس منظر میں مشرق وسطیٰ کے حالات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت آشکار ہے کہ یہاں کے حکمران بہر طور ملکی و قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں، اس ضمن میں ماضی کے تعلقات کو بعینہ امریکی طرز پر ہی پس پشت ڈالا جاتاہے اور مکمل طور پر ان تعلقات کو منقطع کرنا کسی بھی صورت قومی مفادات کے مطابق نہیں سمجھا جاتا لہذا سعودی عرب جو نہ صرف تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، موجودہ صورتحال میں کسی بھی طرح کا امریکی دبائو قبول کرنے کے لئے قطعی تیار نہیں۔ ولی عہد محمد بن سلمان ایک مضبوط اور بروقت فیصلہ کرنے والے لیڈر کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوا چکے ہیں اور ملکی مفادات کی سامنے امریکی دبائو کو کسی خاطر میں نہیں لا رہے، جس کی واضح مثالیں سعودی عرب و ایران کے تعلقات میں چین کے مصالحتی کردار یا ترکیہ کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں نئی پیش رفت یا او پیک ممالک کی تیل پیدا کرنے کے صلاحیت میں اضافہ یا کمی ہو یا امریکہ کی وینزویلا کے حکمران کی مخالفت کے باوجود وینزویلا کے وزیر اعظم مادورو کا سعودی عرب میں پرتپاک استقبال ہو، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ترجیحات اس امر کی واضح عکاسی کرتی ہیں کہ وہ ڈوبتی ہوئی امریکی ریاست کے حلیف کی حیثیت سے نکل چکے ہیں اور کلیتا ملکی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی مستقبل کی پالیسیوں کا تعین کر رہے ہیں۔ اس وقت امریکی خواہشات کے برعکس کہ سعودی عرب اپنی تیل کی پیداوار میں یومیہ اضافہ کرے، بالخصوص اس وقت جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کافی گر چکی ہے، میڈیا ذرائع کے مطابق، سعودی عرب نے اپنی تیل کی یومیہ پیداوار میں ملین بیرل کی کمی کر دی ہے تاکہ تیل کی طلب میں اضافے کے ساتھ اس کی عالمی منڈی میں قیمت بڑھ سکے، جو اس امر کی غماض ہے کہ سعودی عرب اپنی معیشت کو سامنے رکھتے ہوئے، بروقت اور صحیح
فیصلے کر رہا ہے۔ جب کہ اس کا دوسرا اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ سعودی عرب مستقبل کی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے ساتھ بتدریج اور بروقت اپنے تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے تا کہ مستقبل کی صورتحال کے ساتھ ہم آہنگ ہوسکے، تاہم مستقبل کے متعلق حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تا وقتیکہ وقت اپنا فیصلہ سنا دے۔ عالمی سیاست اور تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تقریباً تمام ریاستیں اقدامات کر رہی ہیں تا کہ نئی صف بندیوں میں ان ریاستوں کی جگہ محفوظ رہے اور کسی نئی مشکل کا شکار نہ ہوں اس کے ساتھ ساتھ اندرونی استحکام بھی مستقلا ان حکمرانوں کی نظر میں ہے کہ اس کے بغیر بیرونی معاملات سے بہتر اور پر اعتماد طریقے نبرد آزما ہونا ممکن نہیں۔ عالمی برادری میں اپنی حیثیت و مقام کو برقرار رکھنے کے لئے تمام ریاستیں اپنے اپنے جتن کر رہی ہیں اور دوسری طرف وطن کی مخدوش صورتحال پر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ ارباب اختیار کی نظر میں ترجیحی بنیادوں پر کیا معاملات ہیں؟ صد افسوس کہ دنیا بھر میں نئی صف بندیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پالیسیاں مرتب کی جا رہی ہیں، نئے اتحاد قائم ہو رہے ہیں، نئے تعلقات کو پروان چڑھایا جا رہا ہے، ملک و قوم کے مستقبل اور سمت کا تعین ہو رہا ہے جبکہ وطن عزیز میں ترجیحات کا معیار یہ ہے کہ جمہوریت ہوتے ہوئے بھی کہیں جمہوری اقدار نظر نہیں آتی، آئین ہوتے بھی کہیں اس پر عمل درآمد نظر نہیں آتا، سیاست ہوتے ہوئے بھی کہیں سیاسی عمل نظر نہیں آتا وگرنہ یہ ممکن نہ تھا کہ آئینی تقاضے پورے نہ ہوتے اور اسمبلیوں کی تحلیل کے نوے روز بعد آئینی تقاضوں کے مطابق نئے انتخابات نہ ہوتے، حد تو یہ ہے کہ شکست اور ایک شخص عمران خان کی مقبولیت کا خوف، اسمبلیوں کی مدت پوری ہونی کے باوجود عام انتخابات کے انعقاد کو مشکوک کر چکا ہے۔ میڈیا میں مسلسل تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر آئین شکنی کرنے والوں نے منصوبہ ترتیب دے رکھا ہے کہ اگر عمران خان کی مقبولیت کا یہی عالم رہا تو عام انتخابات کو بھی آئین شکنی کرتے ہوئے مقررہ وقت پر نہیں کروایا جائے گا تا وقتیکہ عمران خان کو سیاسی افق سے ہٹایا نہیں جاتا یا اپنی جیت کی یقین دہانی نہیں ہو جاتی۔ اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا اپنے قومی مفادات کے مطابق ردعمل دے رہی ہے اور ہم ذاتی مفادات کے اسیر، ملکی جغرافیائی صورتحال اور مفادات بے خبر، ذاتی مفادات کے حصول میں اندھے، عالمی برادری میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لئے پالیسیاں مرتب کرنے میں ناکام اور بروقت مناسب اور صحیح ردعمل دینے میں ناکام ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button