Column

سیاسی بحران، غذائی قلت، خوراک کا ضیاع

محمد ناصر شریف

اقوام متحدہ کے دو اداروں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن ( ایف اے او) اور ورلڈ فوڈ پروگرام ( ڈبلیو ایف پی) نے اپنی تازہ رپورٹ میں افغانستان اور پاکستان میں شدید غذائی عدم تحفظ کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ جون سے نومبر تک شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں افغانستان اور پاکستان میں غذائی قلت سے خبردار کرتے ہوئے سیاسی بحران کو اس کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 8.5ملین سے زائد افراد کو ستمبر اور دسمبر 2023ء کے درمیان شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان جس خطے میں واقع ہیں وہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اس تیزی سے بڑھ رہے ہیں کہ آنے والے برسوں میں یہاں غذائی اجناس کی پیداوار مذکورہ اثرات کے باعث بری طرح متاثر ہونے کے امکانات ہیں۔ اس سلسلے میں اقوامِ متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے بھی بار بار خبردار کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان شدید غذائی قلت کے تحت دنیا بھر میں نویں نمبر پر ہے جہاں کے تین صوبوں کی کم ازکم 86لاکھ آبادی شدید غذائی قلت کی شکار ہے۔ اگر پاکستان کا معاشی بحران کم ہوجائے تو کچھ بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اس ضمن میں 2022کے سیلاب کو بھی شامل کیا گیا ہے جس کی بدولت لاکھوں افراد اپنے گھر اور خوراک سے محروم ہوئے اور اب بھوک، افلاس اور بیماری کے شکار ہوچکے ہیں۔ امریکی اور پاکستانی حکام نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ یوکرین میں جنگ، مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے پاکستان میں خوراک کا بحران سر اٹھا سکتا ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن ( پی ایم اے) نے بھی دو عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں پاکستان کے ذکر اور بھوک اور بیماری کے چیلنج پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پی ایم اے نے کہا ہے کہ غذائی قلت، عوام کی صحت اور بہبود پر سنگین منفی نتائج مرتب کرتی ہے۔ ناکافی غذا سے دماغی نشوو نما میں خلل پڑتا ہے جس کے اثرات پوری زندگی بھی رونما ہوسکتے ہیں۔ پی ایم اے نے اس ضمن میں حکومت سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی حکومت، غیر سرکاری تنظیموں، سول سوسائٹی اور متعلقہ سٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ سب ملکر اس اہم مسئلے سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی پر عمل درآمد کریں۔ اس میں زرعی پیداوار میں اضافہ، ذخیرہ اندوزی اور تقسیم کے نظام کو بڑھانا، جدید کاشتکاری کے طریقوں کو فروغ دینا، اور غریبوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے سماجی تحفظ کے جال کو مضبوط کرنا جیسے اقدامات شامل ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی کی ریسرچ کے مطابق مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی کی وجہ سے آمدنی میں ہونے والا نقصان تقریباً 3ارب امریکی ڈالر سالانہ یا جی ڈی پی کا 1.33فیصد ہے۔ مائیکرو غذائی اجزاء کی کمی کے براہ راست طبی اخراجات (6 سے23 ماہ کے بچوں میں) کا اندازہ 19ملین امریکی ڈالر لگایا گیا ہے۔ اگرچہ یہ اعداد و شمار پاکستان میں غذائی قلت کے معاشی اخراجات کو ظاہر کرتے ہیں، عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں 5سال سے کم عمر کے 40فیصد سے زیادہ بچے اسٹنٹنگ کا شکار ہیں، یہ حالت ترقی اور نشوو نما میں رکاوٹ ہے۔ مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی، جیسے آئرن، آیوڈین، اور وٹامن اے، بڑے پیمانے پر ہیں۔ آئرن کی کمی خون کی کمی، نشوو نما اور نشوو نما کے مسائل، علمی اور طرز عمل کے مسائل، کمزور مدافعتی نظام، تھکاوٹ، عام تھکاوٹ اور دیگر اثرات کا سبب بن سکتی ہے جو بچوں کی صحت مند اور کامیاب زندگی گزارنے کی صلاحیت کو روکتے ہیں۔ ادھر وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 4ارب ڈالر کی خوراک ضائع ہوتی ہے، خوراک کا ضیاع انفرادی عمل ہے جس کیلئے آگاہی مہم پلان کر رہے ہیں۔ وزارت کے مطابق پاکستان شدید غذائی قلت کا شکار ہے لیکن اس کے باوجود ملکی پیداوار کی سالانہ تقریباً 26 فیصد خوراک ضائع ہوتی ہے، اس حساب سے ملک میں خوراک کے سالانہ ضیاع کی مقدار 19.6ملین ٹن تک پہنچ جاتی ہے۔ پاکستان میں شکل، سائز اور رنگ کے معیار پر پورا نہ اترنے والی تازہ خوراک بھی ضائع کر دی جاتی ہے اور اسی طرح فیکٹریوں میں چھانٹی کے عمل کے دوران خوراک اکثر سپلائی کے سلسلے سے نکال دی جاتی ہے، ایکسپائری تاریخ قریب ہونے یا گزر جانے پر بھی خوراک ضائع کر دی جاتی ہے۔ دستاویز کے مطابق ملک میں سب زیادہ خوراک کا ضیاع باورچی خانوں اور کھانے پینے کے مراکز پر ہوتا ہے، باورچی خانوں میں اکثر غذائی اشیا استعمال نہیں ہوتیں یا پھر انہیں بغیر استعمال کئے تلف کر دیا جاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اجناس اور پھلوں کو محفوظ کرنے کی سہولیات کی کمی بھی خوراک ضائع کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔ عالمی ادارہ خوراک کے مطابق اوسط پاکستانی گھرانہ ماہانہ آمدنی کا 50.8فیصد خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔ عالمی ہنگر انڈیکس کے مطابق پاکستان دنیا کے افلاس زدہ 121ممالک کی فہرست میں گزشتہ برس 99ویں نمبر پر تھا۔ عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا 36.9فیصد خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے۔ پاکستان میں آبادی کے 20.5فیصد کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان میں 5سال سے کم عمر کے 18فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ پانچ برس کی عمر کے تقریباً 40فیصد بچوں کو نشوو نما میں رکاوٹ اور 29فیصد کم وزن ( انڈر ویٹ ) کا شکار ہیں۔ پاکستان کے 6سے 23ماہ کی عمر کے سات میں سے صرف ایک بچے کو متناسب غذائیت والا کھانا ملتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ضائع شدہ کھانے کا تناسب سالانہ فی کس 74کلوگرام ، چین میں 64کلو گرام اور بھارت میں فی کس 50کلوگرام ہے۔ خوراک سب سے زیادہ یعنی تقریبا 61 فیصد گھروں میں ضائع کی جاتی ہے، سروس سیکٹر یعنی ریستوران ، ہوٹلز پر 26فیصد جبکہ ریٹیل دکانوں یعنی ، ڈھابوں اور سٹالز میں 13فیصد خوراک ضائع کی جاتی ہے۔ اس صورتحال میں سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کو بھی کئی ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن کے ذریعے ملک کو سنگین مسائل سے نکلنے میں مدد مل سکے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ کو تاجر اور کاروبار دوست تو قرار دے رہے ہیں لیکن خوراک کی قلت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اقدامات کے حوالے سے حکومتی اور سیاسی جماعتوں کی کوششوں کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا جارہاہےعالمی اداروں کی رپورٹ میں معاشی مسائل کا تعلق سیاسی بحران سے جوڑا جارہا ہے جس میں کمی کیلئے اقدامات نظر نہیں آرہے۔ سیاسی جوڑ توڑ، ایک سیاسی کشتی سے دوسری کشتی کی جانب سفر جاری ہے۔ موجودہ معاشی، سیاسی اور غذائی بحران سے نمٹنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ضروری ہے۔ طبی سہولیات اور غذائیت سے متعلق آگاہی کیلئے صحت کے نظام کی ترقی اور مضبوطی کیلئے سرمایہ کاری میں اضافے کیا جانا چاہیے، پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کے کثیر جہتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے وسائل اور مہارت کو متحرک کرنے کے لیے موثر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ قائم کی جانی چاہیے۔ اس ضمن میں عوامی آگہی اور شعور بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button