ColumnImtiaz Aasi

وہی پتے ہوا دینے لگے

امتیاز عاصی

ہر طرف طالع آزماوں کی منڈی لگی ہوئی ہے تحریک انصاف کے لوگ عمران خان کو چھوڑے جا رہے ہیں۔اس مرتبہ کسی کو چھانگا مانگا لے جانے کی ضرورت نہیں پڑی وہ جو خان سے دوستی کا دم بھرتے تھے کی تتر بتر ہو رہے ہیں۔ ذرا دبائو برداشت نہیں کر سکے۔ خان بظاہر ہشاش بشاش نظر آتا ہے مگر اندر سے ٹوٹ چکا ہے۔ کسی کو وہم و گمان نہیں تھا بزدار خان کو چھوڑ جائے گا۔ جنرل باجوہ سے عمران خان کے اختلاف کا موجب بزدار ہی تو تھا حلیم خان کو وزیراعلیٰ بنا دیتا تو شائد وزارت عظمیٰ سے محروم نہ ہوتا۔ دراصل خان کو لوگوں کی پہچان نہیں جہانگیر ترین اور حلیم خان بارے اسے علم نہیں تھا۔ جو لوگ مال لگاتے ہیں انہیں بہت سی توقعات ہوتی ہیں۔ ترین اور حلیم خان نے عمران خان پر بہت سرمایہ کاری کی۔ دونوں کی امیدیں بر نہ لائیں تو خان سے راہیں جدا کر لیں۔ ایک روز غلام اکبر مرحوم عمران خان سے ملنے بنی گالہ گئے اٹھنے لگے تو خان نے رکنے کو کہا۔ بولا اکبر صاحب میں ایسا وزیراعلیٰ لائوں گا کسی کے وہم وگمان میں نہیں ہوگا۔ وزیراعلیٰ بنا تو اسے بات کرنی نہیں آتی تھی۔ بزدار کی خاطر عمران خان نے اپنے محسن جنرل باجوہ کی ناراضی لے لی۔اس بار جو کریک ڈائون ہوا اس سے قبل جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں ہوا تھا پیپلز پارٹی کے ہزاروں ورکرز کو جیلوں میں بھیجاگیاہزاروںلوگ ملک چھوڑ گئے ۔آئین معطل تھا عدالتیں بے بس تھیں۔پیپلز پارٹی کے ہزاروں لوگ یو کے،جرمنی اور فرانس میں اب بھی رہ رہے ہیں۔شہید بے نظیر بھٹو بڑی ذہین وفطین تھیں ۔وطن واپس لوٹیں تو بڑے بڑے شہروں میں جلسے کئے وہ اپنے ورکرز کو امن کی فاختائیں کہا کرتی تھیں۔سیاست دان وہی سمجھ دار ہوتا ہے جو اپنی سیاسی قوت بچا کر رکھتا ہے۔جمہوریت پسند سیاست دان کبھی مارشل لاء اور ماروائے آئین جیسے اقدامات کی حمایت نہیں کرتے۔عمران خان نے اپنی سیاسی قوت دائو پر لگا دی پی ٹی آئی ورکروں کو فوجی عدالتوں اور دہشت گردی کی عدالتوں کا سامنا ہے۔ہم نہیں کہتے عمران خان کے کہنے پر ورکرز نے گھیرائو جلائو کیا اور حساس تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا یہ تو انکوائری کے بعد پتہ چلے گا سانحہ نو مئی کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں۔عمران خان کو عوام نے تبدیلی کے نام پر ووٹ دیئے تھے۔غریب عوام روایتی سیاست دانوں کے چنگل سے نکلنا چاہتے تھے عمران خان سے انہیں بہت سی امیدیں وابستہ تھیں۔عمران خان سیاست کے دائو پیچ سے نابلد ہے ارکان اسمبلی کو جوڑے رکھتا تو عدم اعتماد نہیں ہو سکتی تھی۔ دراصل عمران خان کو خوش فہمی تھی اقتدار میں لانے والے اس کے ساتھ ہیں لہذا اس نے اپنے ارکان اسمبلی کی پروا نہیں کی۔ خان نے عوام کو انہی روایتی سیاست دانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔اکٹر تو خان میں کپتانی کے دور کی تھی وزارت عظمیٰ پر بیٹھا تو اس کے تیور بدل گئے۔حق تعالی کو تکبر پسند نہیں۔اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد اپوزیشن میں رہتا تو صورت حال کچھ اور ہوتی۔کے پی کے اور پنجاب کی اسمبلیاں تحلیل کرکے ایک اور بڑی غلطی کر لی۔ کبھی سیاست دانوں نے سچ بولا ہے وفاقی وزرا کہتے تھے خان اسمبلیاں تحلیل کرئے حکومت الیکشن کرا دے گی۔ خان کو چودھری پرویز الٰہی کی یاد ضرور آتی ہوگی وہ دہائیاں دیتا رہا اسمبلی مت توڑو۔ فواد جیسے طالع آزمائوں کے کہنے پر اسمبلی توڑ کر ہاتھ ملنے کاکیا فائدہ۔خان ایک لحاظ سے خوش قسمت ہے نومئی کو وہ پولیس کی حراست میں تھا آزاد ہوتا تو کب کافوجیوں کی تحویل میں ہوتاپولیس کی کسڈی اس کی بچت کا ذریعہ بن گئی۔ آصف زرداری اور فضل الرحمان بڑے سمجھ دار ہیں وہ اداروں سے ٹکر لینے سے گریز کرتے ہیں۔جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا تو فضل الرحمان کے والد مفتی محمود فوجیوں کے ساتھ تھے مشرف نے مارشل لاء لگایا تو فضل الرحمان نے ایم ایم اے بنا لی۔عمران خان کے دورمیں مولانا کے بندوں نے ایسے دھرنا نہیں دیا تھا کسی کے اشارے پر دھرنا ہوا ۔اب کی بار تو مولانا کی اپنی حکومت تھی جے یوآئی کی فورس کسی رکاوٹ کے بغیر سپریم کورٹ کی دیواروں تک پہنچ گئی۔سی ڈی اے والوں نے دھرنے کے شرکاء کے لئے ٹھنڈے پانی کا خصوصی انتظام کیا تھا۔پی ڈی ایم میں خان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے پر اختلاف ہے ۔پیپلز پارٹی تحریک انصاف پر پابندی کے خلاف ہے۔پیپلز پارٹی نظریاتی جماعت ہے جس کے ورکرز نے مشکل ترین وقت بھی دیکھا ہے وہ ماروائے آئین کسی اقدام کی حمایت کیسے کر سکتی ہے۔ تحریک انصاف کے ورکرز کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے فوجی اور دہشت گردی کی عدالتوں میں ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں گے۔ سانحہ نو مئی میں کسی مرد وخاتون کا کوئی کردار نہیں ہے انہیں شناخت پیریڈ کے بعد رہا کیا جا رہا ہے کسی کی موقع پر موجودگی پائی گئی اور اس نے گھیرائو جلاو میں حصہ نہیں لیا عدالتیں انہیں ضمانت پر رہائی دے رہی ہیں۔سانحہ نو مئی کی انکوائری ہر پہلو سے ہونی چاہیے جیسا کہ اخبارات میں رپورٹ ہوا ہے کے پی کے میں مسلم لیگ نون کے کچھ ورکرز نے بھی احتجاج میں حصہ لیا تھالہذا حکومت کو ذاتی اناء سے نکل کر سانحہ نو مئی کے پس پردہ محرکات کا پتہ چلانا چاہیے ۔سانحہ سے ملک کی بڑی بدنامی ہوئی ہے شہدا کی یادگاروں کو مسمار کرنا کہاں کی جمہوریت ہے جو لوگ براہ راست اس واقعہ میں ملوث ہیں وہ کسی رعایت کے کیسے مستحق ہو سکتے ہیں ۔ تحریک انصاف میں توڑ پھوڑ کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے عمران خان کو حکومت گرفتار نہیں کرے گی ۔عمران خان کی جماعت کے بہت سے سابق وفاقی وزراء کے خلاف نیب نے تحقیقات شروع کر دی ہے۔تحریک انصاف کے حصے بخرے کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کا بھی امتحان ہے ۔پی ٹی آئی کے وہ ارکان جو سانحہ نو مئی میں ملوث تھے اور عمران خان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں انہیں مقدمات سے بری الذمہ قرار دینا حکومت کے لئے مشکل ہوگا۔ حکومت نے انہیں چھوڑ دیا تو متاثرہ لوگ اعلیٰ عدالتوں کو رخ کریں گے ۔تازہ ترین حالات میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں، عمران خان نے جن پر تکیہ کیا تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button