ColumnTajamul Hussain Hashmi

بے شعور انسانوں کی مارکیٹ

تجمل ہاشمی

دنیا میں سب سے آسان کام جواز پیدا کرنا ہے، انسان کے پاس بے شمار جواز ہیں، سالوں پہلے معاشرے میں اخلاقیات تھی ، لوگوں کے پاس جواز نہیں فرمابرداری تھی، غیر ارادی سوچیں معاشرہ میں تیزی سے سرایت ہو چکی ہیں، ہر فرد کے پاس سوال سے پہلے جواز موجود ہے۔ خاموش تماشائیوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے۔ آنکھوں دیکھے ظلم سے کنارہ کشی کرنے کے رجحان میں اضافہ معاشرہ کی بنیادوں کو کمزور کر رہا ہے۔ مدد کرنے سے لوگ اجتناب کرتے ہیں شعور سہی اور غلط کے فرق کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ شعور کے مفہوم کو سمجھے کے لیے ہم نے انڈیپنڈنٹ اردو کے بہترین کالم نگار اور کتابوں کے منصف سجاد اظہر سے رابطہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ شعور کیا ہے، ملکی صورت حال میں جو بگاڑ ہے یہ اسی شعور کی مہربانی ہے یا پھر دنیا کی تباہی کی علامات ہیں یا پھر شعور کا وجود ختم ہو رہا ہے۔ صحافی سجاد اظہر کا کہنا تھا ’’ شعور دنیا میں باقی نہیں رہا، دنیا میں شعور فروخت کے لیے موجود ہے، دنیا میں نہ سچ ہے اور نہ ہی جھوٹ ہے، ابھی کا سچ تھوڑے عرصہ بعد جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے، صحافی سجاد اظہر نے کہا کہ کرونا کو دیکھ لیں انٹرنیشنل ادارے جس کو وبا کہتے رہے پوری دنیا کو کمزور معیشیت ، مہنگائی اور افرادی قوت میں کمی کا شکار کر گیا۔ آج دنیا اس کو فلو کہہ رہی ہے، اس وقت کے ساتھ انسان بے شعور ہے، انسان مشینی دنیا کے کنٹرول میں ہے، انسان روبوٹ کے طور پر کام کر رہا ہے۔ اس روبوٹ کو مارکیٹ کنٹرول کر رہی ہے۔ مارکیٹ میں پیسہ لگایا جاتا ہے، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کیا جاتا ہے، اگر چند لوگوں درست حقائق بیان بھی رہے ہوں تو ان کی آواز طاقتور مارکیٹ میں سنائی نہیں دیتی، شعور پر مارکیٹ اثر انداز ہے، سچ اور جھوٹ کا فرق طاقتور حلقوں نے مارکیٹ کی مدد سے ختم کر کے انسان کو بے شعور کر دیا ہے۔ دنیا کو بھی اس طرح کی صورت حال کا سامنا ہے۔ شعور کے لفظی معنی احساس کے بھی ہیں جو ختم ہو چکا ہے، یعنی وہ علم جو بنا تعلیم اور دلیل کے حاصل ہو یا وہ نفسیاتی علم جو خود اپنی ذات یا ماحول کے متعلق بذریعہ عقل ملے، ادراک ، وجدان اور رجحان انسانی شعور کی بیداری کی مختلف صورتیں ہیں۔ ایک تعلیم یافتہ مگر بے حس، وجدان اور ادراک کی خاصیت کے مبرا شخص کبھی بھی باشعور نہیں ہوسکتا پھر چاہے کتنی بھی اعلیٰ ڈگریوں کا حامل کیوں نہ ہو ۔ ہم سب کے ذہنوں میں یہ بات گھر کر گئی ہے کہ تعلیم اور شعور آپس میں مترادف ہیں ، اس لیے صرف تعلیم یافتہ شخص ہی با شعور ہوسکتا ہے مگر ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہمارا یہ نظریہ کہ تعلیم ہی شعور کا موجد ہے، بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور تو اسی دن ہی عطا کر دیا جس دن بنی نوع انسان وجود میں آیا تھا۔ عقل شعور کی بنا پر انسان کو اشرف المخلوقات کے بلند ترین درجے پر فائز کیا گیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرٌ ہیں، جن میں سے بیشتر تعلیم یافتہ نہیں تھے مگر ان سب کی ایک خاصیت یہ ضرور تھی کہ وہ حد سے زیادہ معتبر، باشعور، انتہائی مدبرانہ شخصیت کے حامل شریف النفس انسان تھے۔ انہیں غلط اور صحیح کا مکمل ادراک تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلیم انسانی خیالات کو سنوارتی ہے۔ انسانی ذہن پر سوچوں کے نئے دروازے وا کرتی ہے۔ زندگی گزارنے کے نئے طریقی متعارف کراتی ہے۔ زندگی کو آسان بنانے کا ہنر عطا کرتی ہے۔ اگر ہم صرف تعلیم کو ہی شعور سے وابستہ کر لیں تو اس وقت ایک تعلیم یافتہ شخص کا شعور کہاں جاتا ہے جب وہ تعلیم کی بدولت ، دولت سے مالا مال اعلیٰ عہدے پر فائز ہوتے ہوئے بھی اپنے والدین کو بوجھ سمجھتا ہی اور انہیں اولڈ ایج ہوم میں بھیجتا ہے یا پھر بے یار مدد گار چھوڑ کر دوسرے ملک کا نمبر دو شہری بننا قبول کرتا ہے اس وقت یہ شعور کہاں جاتا ہے جب وہ بھوک اور افلاس کے مارے ہوئے لوگوں کو اپنی تعلیم اور دولت کے غرور میں زمین پر چلنے والے کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے۔ اپنے ماتحت افراد سے جانوروں سے زیادہ بدتر سلوک کرتا ہے۔ اس وقت یہ شعور کہاں جاتا ہے جب دنیا کو دین پر فوقیت دیتا ہے۔ اس وقت ایک تعلیم یافتہ شخص کا شعور کہاں جاتا ہے جب وہ حکمرانیت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو کر ملکی خزانے کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتا ہے لوٹ مار کرتا ہے۔ رعایا پر بھوک، افلاس اور ظلم کے دروازے کھولتا ہے، اس وقت تعلیم یافتہ خواتین کا شعور کہاں جاتا ہے جب فیشن کے نام پر عریاں لباس زیب تن کرتی ہیں، کیا اس کو شعور کہتے ہیں جو تعلیم سے ملا ہے، یہ شعور نہیں ہے، یہ صرف اور صرف طاقت اور دولت کا غرور ہو سکتا ہے۔ صحافی سجاد اظہر نے درست کہا کہ لوگ، حکومتیں بے شعور ہو گئے ہیں ، شعور پر طاقتور مارکیٹ نے قبضہ کر لیا ہے، کل کا سچ وہ آج کا جھوٹ ثابت کیا جا رہا ہے۔ ہمارے پاس جمہوری دنیا کے جمہوری نظام کی ممبر شپ ہونے کے بعد جس طرز سے ملک چلایا ہے، اس میں نہ تعلیم ہے اور حقیقی شعور کی پرورش آہستہ آہستہ فوت ہو چکی ہے۔ 1970ء کے بعد سے دو پارٹیوں نے روٹی کپڑا اور مکان ، ووٹ کو عزت دو، کھاتا بھی ہے لگاتا بھی ہے، جیسے بیانہ سے ملک چل رہے تھے۔ سنہ 2013کے بعد مدینے کی ریاست والوں نے اپنا نعرہ مارکیٹ کیا اور بڑی آسانی کے ساتھ معاشی کمزوری اور ماضی کی حکومتوں کی کرپشن کی کہانیوں سنا کر پونے چار سال حکومت میں رہے اور پچھلے ایک سال سے جمہوری سسٹم کو جمود کیا ہوا ہے۔ کم علمی، مہنگائی ، لا قانونیت اور سوشل میڈیا پر مارکیٹ کر کے اپنے مقاصد کے حصول کو عوامی شعور سے جوڑا ہے لیکن یہ احساس برتری اور ذہنی پسماندگی کی کیفیت ہے، تحریک انصاف جس کو شعور کا نام دے کر طوفان برپا کر رہی ہے وہ شعور نہیں لا علمی ، کم عقلی اور ایک مخصوص مارکیٹ کی گئی سوچ ہے جس کو صحافی، لکھاری سجاد اظہر روبوٹ سے تشبیہ دیتے ہیں، کپڑے اترنے اور ویڈیو، آڈیو سے اس پیدا کے گئے شعور کو کنٹرول کرنا آگ کو مزید ہوا دینے کے مترادف ہے ، ہر دوسرا بندہ یہی سمجھ رہا ہے کہ عوام کو شعور دینے میں خان کا بہت کردار ہے، میں ایسے شعور جو کہ شعور نہیں سمجھتا، یہ معاشرہ کی اخلاقی تباہی ہے، خان کے دئیے گے شعور نے صرف چور ، چور اور ایک ایسی تفریق کو جنم دیا ہے جس کی سمجھ حکومت کو بھی نہیں آ رہی، خان نے حکومت سے پہلے چور چور، کرپشن، لوٹ مار اور حکومت ملنے کے بعد بھی چور چور والے بیانہ کو نہیں چھوڑا، کرونا کے بعد جب پوری دنیا کو مہنگائی نے اپنی لپیٹ میں لیا تو خان کی سیاسی چال سے چور چور اور دونوں جماعتوں کی کرپشن کو مہنگائی کے ساتھ جوڑ کر پانچ سال پورے کرنے کی پلاننگ جاری تھی۔ خان کی حکومت چلی گئی تو خان نے دوبارہ اسی سوچ کو ملک اور دنیا میں مارکیٹ کیا اور نعرہ لگایا کہ قوم کو شعور آ گیا ہے، اتحادی حکومت پر مالیاتی مسائل مزید بڑھتے گئے، خان نے سیاسی افراتفری میں کمی نہیں آنے دی اور عوام کو چارج رکھا، سوشل میڈیا پر سیاسی چال کو شعور کا نام دے کر ملکی معیشت کو مزید کمزور کیا گیا۔ اس سارے دورانیہ میں سیاسی نعروں، بیانہ کو شعور اور بیداری کے طور پر پیش کیا گیا۔ پہلے قوم معاشی طور پر کمزور تھی اور خان نے معاشرہ کو اخلاقی طور پر بھی کمزور کر دیا۔ اب ہر گھر گلی محلوں میں لوگوں ایک دوسرے سے خفا اور ناراض ہیں، معاشرہ کی خفت میں کمی کے لیے حکومت کو نظام عدل میں بہتری، کرپشن کا خاتمہ اور مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button