Column

ایک دن کا عدل 60سال کی عبادت سے افضل ہے

تحریر: قاضی محمد شعیب ایڈووکیٹ

اقوام عالم کی آزاد اور خودمختار ریاستوں کے نقشے پر ابھرنے والے وطن عزیز پاکستان کے عوام کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار ملک میں قانون کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف سے منسلک ہے۔ اس لیے کہا گیا کہ ایک دن کا عدل ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے۔ جس میں قوموں کے عروج و زوال کا راز ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا کے میڈیا نے دیکھا کہ 9مئی 2023ء کو چیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو اسلام ہائیکورٹ کی عمارت کے اندر سے نیب کے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ مقدمے میں گرفتاری کے ردعمل پر ان کی سیاسی جماعت کے مشتعل کارکنان نے ملک بھر میں سرکاری غیر سرکاری املاک کے ساتھ ساتھ جناح ہائوس، جی ایچ کیو ، فوجی تنصیات اور شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرتے ہوئے ریاستی اداروں کی رٹ کو چیلنج کر دیا۔ وطن عزیز کی سلامتی اور دفاع کو شدید نقصان پہنچا کر ثابت کر دیا کہ ریاست کے اندر ایک نئی ریاست قائم ہو چکی ہے۔ جس پر بھارتی میڈیا نے پاکستان کے خلاف زہریلے تبصرے کرتے ہوئے کہا کہ جو کام بھارت 75سال میں نہ کر سکا وہ پی ٹی آئی جماعت کے کارکنان نے ایک دن میں کر دکھایا۔ اس دوران سپریم کورٹ پاکستان نے 10مئی 2023کو عمران خان کی ضمانت پر رہائی کے ساتھ ساتھ اسلام ہائیکورٹ سے دیگر مقدمات میں ضمانت کے احکامات پر قانون پسند حلقے پاکستان میں قانون کے حکمرانی کے دوہرے معیار پر حیران ہوئے۔ دریں اثنا سپریم کورٹ نے بلوچستان کے حق دو تحریک کے لیڈر مولانا ہدایت الرحمان کو بھی 18مئی 2023کو ضمانت پر رہائی کا حکم دیا۔ جن کو بھی سپریم کورٹ عمارت کے اندر سے گرفتار کیا گیا تھا ۔ مولانا ہدایت الرحمان کو بلوچستان پولیس نے جنوری 2023سے گرفتار کیا تھا۔ قبل ازیں پاکستان کے قانون ساز حلقوں نے 10اپریل 2023کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منظور شدہ 1973کے آئین کی گولڈن جوبلی کی تقریبات منائی جس میں شرکاء نے آئین کو جمہوریت کی بقاء اور ملک کے 24کروڑ 33 لاکھ سے زائد عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی مصدقہ دستاویز قرار دیا۔ اس موقع پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ جن میں سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے آئین پاکستان سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں یادگار کا بھی افتتاح کیا۔ لیکن آزادی کے 75سال گزرنے کے بعد بھی آج پاکستان کی غریب اور متوسط عوام عدل و انصاف کے حصول کے ساتھ ساتھ بھوک بے روزگاری جسے گرداب میں الجھی ہوئے ہیں۔ بہت اچھے! تمام مہذب معاشروں میں عوام کی بھلائی کے فیصلے پارلیمنٹ کو ہی کرنا ہوں گے لیکن اگر پارلیمنٹ عوام کا اعتماد بحال نہیں کر سکتی تو فیصلے کون کرے گا؟ درحقیقت ہم یہ بھول گئے ہیں کہ سارے باغ و بہار کے گانے کون لکھے گا، انہیں سنے گا اور دوبارہ پڑھے گا کون؟ کیا وہ گیت آزادی، خوشحالی، بھائی
چارے، اچھی سوچ اور قوم کے درد کے جذبات کی لازوال داستان بن گئے ہیں۔ پاکستان کی 24کروڑ 33سے زائد آبادی اس انتظار میں ہیں کہ کب باغ میں حسن بہار دوبارہ آئے گا اور مایوس اور مرجھائے ہوئے دل اس کے گیتوں سے دوبارہ بہار کی امید کے ساتھ سکون حاصل کر سکیں گے۔ بدقسمتی سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے وعدوں اور ترجیحات کی فہرست بدل گئی ہے۔ ہم غریبوں کے ساتھ ہونے والی حقیقت کو محسوس کرنے کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اور یہ اخلاقیات کے منافی ہے اور جن معاشروں میں اخلاقیات دم توڑ دیتی ہیں وہاں کوئی بھی کوشش اور قانون بے اثر ہو جاتا ہے اور معاشرے کو جرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریاست اور عوام کے اس ناگفتہ بہ حالات کا فیصلہ کون کرے گا؟۔ ہماری پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس ریاست میں کیا ہو رہا ہے کن مقاصد کے لیے؟۔ اگر پارلیمنٹ غیر جانبداری سے مشاہدہ اور فیصلہ کرنے سے قاصر رہے تو پھر قانون کے نفاذ کے لیے کون آگے بڑھے؟۔ آئین اور ضوابط ہمیشہ عوام کے سب سے بڑے مفادات کے حق میں ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں ان طاقتور اداروں سے امیدیں وابستہ ہیں جن میں اعلیٰ عدلیہ اس اہم حصہ ہے اور پارلیمنٹ سمیت تمام اداروں کو اس کے فیصلوں کا احترام اور احترام کرنا ہوگا۔ ورنہ بہت کچھ کھونے کے بعد، ہم اپنی اصل پوزیشن پر واپس نہیں آسکتے ہیں۔ خان صاحب کے باب کو تھوڑی دیر کے لیے ایک طرف چھوڑ دیں لیکن پارلیمنٹ کا فرض ہے کہ وہ عوامی مفادات کے لیے اپنے
ایجنڈے کو منظر عام پر لاتے ہوئے گزشتہ ایک سال سے عوام پر کیا گزری ہے؟ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جب عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں کو حراست میں لیا گیا تو ایک ایسا شخص تھا جو بہت ہی خستہ حال تھا، اس کو گرفتار کر کے حیدر آباد جیل لایا گیا۔ جیلر نے اس پریشان حال شخص کو دیکھا اور حقارت سے کہا کہ اگر تم عبدالولی خان کے خلاف بیان لکھ کر دے دو تو ہم تم کو رہا کر دیں گئے۔ ورنہ یاد رکھو اس کیس میں تم ساری عمر جیل میں گلتے سڑتے رہو گے اور یہیں تمہاری موت ہو گی۔ یہ سن کر اس شخص نے جیلر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور مسکرا کر کہا ’’ جیلر صاحب جیل میں تو شاید میں چند برس زندہ بھی رہ لوں، لیکن اگر میں نے یہ معافی نامہ لکھ دیا تو شاید چند دن بھی نہ جی پائوں‘‘۔ اصولوں او عزم و ہمت کی اس دیوار کا نام حبیب جالب تھا۔ اور اس کو جیل میں بھیجنے والا اپنے وقت کا سب سے بڑا لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ میں اس روز حیرت کا بت بن کر بیٹھا رہا جب میں نے بلاول بھٹو کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر حبیب جالب کا کلام پڑھتے دیکھا اور کلام بھی وہ جو اس نے بھٹو کے دور میں لکھا تھا۔ آپ کو یہ سن کر شاید حیرت ہو کہ حبیب جالب عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر تھے اور انہوں نے بھٹو دور میں الیکشن لڑا تھا اور الیکشن ہارنے کے بعد وہ بھٹو کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے رہے، ان کو جیل میں ڈال دیا گیا اور ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد ان کو اس کیس سے بری کیا گیا تھا۔ کاش کہ بلاول کو تاریخ سے تھوڑی سی بھی آگہی ہوتی تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ عظیم انقلابی شاعر حبیب جالب کا بیشتر کلام بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھا۔ جب بھٹو کی برسی پر بلاول حبیب جالب کا کلام پڑھ رہے تھے تو بھٹو دور میں ہونے والے مظالم میری آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ حبیب جالب پر اتنا ظلم
ایوب خان اور ضیاء الحق جیسے آمروں کے دور میں نہیں ہوا جتنا ظلم قائد عوام اور ایک جمہوری لیڈر بھٹو کے دور میں ہوا۔ جس دن بھٹو نے حبیب جالب کو گرفتار کروایا تھا اس دن جالب کے بیٹے کا سوئم تھا اور وہ چاک گریبان کے ساتھ جیل میں گئے تھے اور اپنے بیٹے کی یاد میں لکھی نظم ایک تاریخی انقلابی نظم ہے۔ کاش کوئی یہ سب باتیں جا کر بلاول کو بتائے کہ رٹی رٹائی تقریریں کر لینا بہت آسان ہے لیکن بہتر ہو اگر تم ان باتوں کا تاریخی پسِ منظر بھی جان لو۔ اس صورتحال کے پیش نظر پوری قوم کو پاکستان کے آئین کے تحفظ کے لئے قومی اتحاد اور یگانگت کا بھر پور مظاہر ہ کرنا ہو گا۔ پاکستان مخالف قوتیں ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے ملک میں جاری سیاسی اور آئینی بحران کو خطر ناک رنگ دینے میں مصروف ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جن قوموں نے معاشرے میں طاقتور اور کمزور کے لیے قانون کا دوہرا معیار قائم کیا غربت، بھوک و افلاس ا ن کا مقدر بنا رہا۔ اس لیے تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے اور ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ چلنے کے لئے، ایک دن کا عدل ساٹھ سال کی عبادت سے افضل ہے، کے اصول پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button