Column

ڈالر سے آگے جہاں اور بھی ہیں

تحریر : سیدہ عنبرین

تھڑے پر چائے کی چینک اور چار پیالیاں سجائے ہوٹل سے لیکر فائیو سٹار ہوٹل تک ہر جگہ دو ہی موضوعات پر بحث ہورہی ہے، ڈالر کہاں تک جائے گا اور پی ٹی آئی اور عمران خان کا مستقبل کیا ہے۔ تازہ ترین مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی قریباً ساڑھے چوبیس کروڑ نفوس تک شمار ہوچکی ہے، رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد چار کروڑ بھی نہیں جس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ بیس کروڑ سے زائد لوگوں کو سیاست یا انتخابات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اسی طرح کاروبار اور بالخصوص چھوٹے یا بڑے پیمانے پر امپورٹ یا ایکسپورٹ بزنس سے وابستہ افراد کی تعداد بھی کروڑوں میں نہیں شاید لاکھوں میں ہو، گویا بیس کروڑ سے زیادہ افراد ایسے ہیں جن کا ڈالر سے کوئی تعلق نہیں پھر عام آدمی ان دو بحثوں میں کیوں الجھا ہوا ہے جس سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اس سوال کا سیدھا اور سادہ جواب یہ ہے کہ آج کا دور میڈیا کا دور ہے اور اس پر صبح سے رات گئے تک یہی بحث نظر آتی ہے جبکہ عام آدمی کے مسائل پر کہیں کوئی بات کرتا نظر نہیں آتا۔ عام آدمی کا مسئلہ روٹی، کپڑا، مکان، دوا، تھانہ، کچہری، تحفظ، تعلیم، انصاف اور خالص غذا ہے جن میں سے اسے کوئی چیز مناسب داموں میسر نہیں ہے۔ روپے کی روز افزوں گرتی ہوئی قدر نے جینا دوبھر کر دیا ہے جبکہ سماجی مسائل اس کے علاوہ ہیں۔
حکومت کی طرف سے ایک اہم فیصلہ کیا گیا ہے، وہ یہ کہ ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر کا نام اور تصویر اب ٹی وی پر نظر نہیں آئے گی۔ اس فیصلے کے بعد ٹھیک چوبیس گھنٹے میں اس کا اثر نظر آنا شروع ہوگیا جس کے مطابق ٹی وی پر اس بحث کو دیکھنے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز کمی واقع ہوئی کہ ڈالر، پی ٹی آئی اور عمران خان کا مستقبل کیا ہے۔ اب امید کی جاسکتی ہے کہ عام آدمی کے مسائل پر بات ہوسکے گی۔ بات ہوگی تو فیصلہ سازوں کے کانوں پر جوں رینگے گی۔ شام سات بجے سے لیکر رات گیارہ بجے تک گنتی کے بیس چہرے گھوم پھر کر مختلف ٹی وی چینلز پر نظر آتے ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوں کے ترجمان ، ممبر قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی یا اس کے علاوہ وہ جماعتوں سے ہمدردی رکھنے والی تجزیہ کار کے طور پر جانے جاتے ہیں، ان کی گفتگو میں جو سبق ملتا ہے وہ دنیا میں اور کہیں نہیں ملتا۔ بیشتر سیاسی شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے ہر پانچ برس بعد اپنی سیاسی جماعت تبدیل کی، کبھی ان کا ہیرو یا سپر مین ایک شخص تھا، پارٹی بدلنے کے بعد وہ زیرو ہوگیا پھر اچانک کسی اور نے ان کے ہیرو کی جگہ لے لی، پانچ برس مزید گزرے تو معلوم ہوا کہ وہ تو بہت زیادہ نالائق اور کرپٹ تھا لہٰذا اب جس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے وہ فرشتہ سیرت ہی نہیں بلکہ مکمل فرشتہ ہے، بس صرف اس کی صورت فرشتوں جیسی نہیں اس کو دیکھیں تو کچھ اور گمان ہوتا ہے، تجزیہ کاروں کے تجزیے بھی ایسے ہی ہیں، کوئی انہیں نہیں پوچھتا کہ پانچ برس قبل جسے آپ قوم کا نجات دہندہ قرار دے کر اس کے نام کی مالا جپ رہے تھے اب یکایک اس کے سر پر کون سے سینگ نکل آئے ہیں جو آپ کو پسند نہیں۔
ایک دانشور نے اس لحاظ سے خوب نام کمایا کہ وہ پہلے تو چار گلاس چڑھا کر اظہار خیال کیلئے کیمرے کے سامنے بیٹھتے تھے پھر کچھ عرصہ بعد یہ رواج آیا کہ خود ٹی وی چینل پر جانے کی بجائے کیمرہ ٹیم کو گھر پر بلا لیا جاتا تھا، اس سہولت کا فائدہ یہ اٹھایا گیا کہ گلاس بھر کر سامنے میز پر رکھ لیا گیا اور کوئی شرم محسوس نہ کی گئی، یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ عالم بالا میں پہنچنے کے بعد ایک روز انہوں نے قوم سے معافی مانگی کہ میں ایک ایسی شخصیت کے جو اوصاف بیان کرتا رہا ہوں وہ سب غلط سب کچھ جھوٹ تھا اس کے پلے کچھ بھی نہیں، وہ حکومت میں آنے کے بعد اپنے وعدوں میں سے ایک بھی پورا نہیں کر سکا پس وہ اب اعتبار کے قابل نہیں ہے۔ ان کی طرف سے یہ گفتگو ٹیلی کاسٹ ہوئی تو ایوان اقتدار میں گویا زلزلہ آگیا، انہیں منانے کیلئے ہنگامی طور پر ہرکارے دوڑائے گئے مگر وہ نہ مانے پھر انہوں نے شرط رکھ دی کہ وزیراعظم وقت جن کی شان میں انہوں نے گفتگو کی تھی وہ ان کے گھر خود آئیں تو پھر میں کچھ سوچوں گا، چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ وزیراعظم اپنے نورتنوں کے ہمراہ ان کے گھر گئے ٹھیک اگلے روز اس تجزیہ کار کا تجزیہ بدل گیا اور اس روز سے لے کر شب گزشتہ تک وہ اس سابق وزیراعظم کے اوصاف بیان کرتے نہیں تھکتے، ان کے ٹاک شو دیکھنے اور سننے والے سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ ان کی کس بات پر اعتبار کریں اور کس پر نہ کریں، گھنٹوں گھنٹوں جاری رہنے والے سیاسی ٹاک شوز نے بعض سیاسی شخصیات اور تجزیہ کاروں کی شان میں اضافہ نہیں کیا کیونکہ دھواں دھار گفتگو کے بعد لڑائی مار کٹائی تک نوبت پہنچنے کا تاثر دینے کے بعد جونہی کیمرہ آن ہوا تو متحارب ایک دوسرے سے نہایت گرمجوشی سے یہ کہتے پائے گئے کہ آج خوب گرم پروگرام ہوا ہے، آج اس کی ریٹنگ کو کوئی اور چھو بھی نہ سکے گا، اس کے بعد بظاہر دست و گریبان نظر آنے والے اکٹھے ڈنر کرتے نظر آئے، یہ کہانیاں اور ایسے واقعات ٹی وی کیمروں کے ذریعے ہی ناظرین تک پہنچے تو انہوں نے انگلیاں دانتوں میں داب لیں، ٹی وی پر ٹاک شوز کی نورا کشتیوں کا پول بعض اوقات یوں کھلا کہ ٹاک شو میں وقفہ ہوگیا لیکن مائیک اور کیمرہ کھلا رہ گیا جس میں کہا جارہا تھا کہ تم یہ دائو لگائو میں یہ دائو لگائوں گا۔ ملک میں بسنے والے عام آدمی کے بیشتر مسائل کا تعلق ڈالر سے ہے نا انتخابات سے، البتہ ہر زمانے کی حکومت سے ضرور ہے۔ کسی بھی حکومت کو آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک نے یہ نہیں کہا کہ آپ کے ملک میں دودھ، کوکنگ آئل، پٹرول اور دوائیوں میں ملاوٹ ضروری ہے نہ ہی انہوں نے کبھی شرط رکھی ہے کہ صارفین سے اصل کرنسی لیکر انہیں جعلی مال بیچو یا کلو خریدے تو اسے نو سو گرام دو اور اگر کوئی چیز لٹر میں لینا چاہے تو اسے دس پوائنٹ کم دو، مگر ہمارے یہاں یہ سب کچھ ہورہا ہے اس کی ذمہ دار کوئی ایک حکومت نہیں بلکہ اقتدار میں آنے والی گزشتہ پچاس برس کی تمام حکومتیں ہیں۔
ملک بھر میں تجاوزات کی بھر مار ہے، کاروباری افراد نے فٹ پاتھ گھیر رکھے تھے، کسی نے نہ پوچھا اب ان کی دکانوں یا دکانوں کا مال سڑک تک آگیا ہے، یہ سب تجاوزات ان کی مرضی سے ہوتی ہیں جن کا کام تجاوزات ختم کرنا ہے، ہر دوکان کے آگے دو کھوکھے لگے نظر آئیں گے جہاں ضرورت کے مطابق بجلی یا سوئی گیس کنکشن بھی موجود ہے۔کچھ بس سٹاپ ایسے ہیں جہاں مسافروں کیلئے تعمیر کردہ شیڈ میں دوکان بن چکی ہے مگر آنکھیں رکھنے والوں کو نظر نہیں آرہی، ہر چوک پر گداگروں کی ایک خاندان کا قبضہ ہے جو بظاہر بھیک مانگتا نظر آتا ہے مگر در پردہ منشیات فروشی کے ساتھ ساتھ عظمت فروشی کے گھنائونے کاروبار سے منسلک ہے، لاہور کینٹ میں ایک پولیس اہلکار نے ایک گداگر ٹولے کو گاڑیوں کی طرف لپکنے سے منع کیا تو اس مافیا کے سہولت کار نے پولیس اہلکار کو گولی مار دی وہ وہیں دم توڑ گیا، ڈالر سے آگے جہاں اور بھی ہیں، مسائل کا جہاں آباد ہے اُدھر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ڈالر کا رونا تو ہمارے مقدر میں لکھا جا چکا ہے وہ تو جاری رہے گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button