
آئندہ بجٹ بھی ظالمانہ ہو گا
سی ایم رضوان
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی رحلت کے بعد آنے والے تقریباً تمام حکمرانوں کی مجرمانہ اور وطن دشمنی کی حد تک احمقانہ معاشی و انتظامی پالیسیوں اور ہر دور میں سرکاری وسائل کی ہر سٹیک ہولڈر کی جانب سے کھلم کھلا لوٹ کھسوٹ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ایک طرف ملکی خزانہ خالی ہو چکا ہے اور دوسری طرف آئی ایم ایف اپنی تمام تر شرائط منوانے کے بعد بھی محض اپنے پالتو عناصر کے اقتدار میں نہ ہونے کے باعث پروگرام کے مزید جاری رکھنے پر آمادہ نہیں اور ہم مجبور ہو کر ایک مرتبہ پھر ایک نئے جائزہ کے لئے آئندہ بھی آئی ایم ایف کے در پر گھٹنے ٹیکنے کے لئے تیار ہیں۔ موجودہ معاشی صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی واقع ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 26 مئی کو ختم ہونے والے کاروباری ہفتے میں 21.81کروڑ ڈالر کم ہوئے۔ جبکہ ملکی زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 26 مئی تک 9ارب 51کروڑ ڈالر رہے۔ سٹیٹ بینک کے ذخائر 10.23کروڑ ڈالر کم ہوکر 4ارب 9کروڑ ڈالر رہے جبکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر 11.58کروڑ ڈالر کم ہو کر 5.42ارب ڈالر رہے۔ ایف بی آر کو ٹیکس وصولیوں کی مد میں 440 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑا۔ علاوہ ازیں آئندہ وفاقی ترقیاتی بجٹ کا حجم 1100ارب روپے تک ہونے کا امکان ہے جبکہ وزیر مملکت برائے خزانہ کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ ٹیکس فری نہیں دے سکتے۔ مجموعی طور پر رواں مالی سال پاکستان کی معیشت کو بڑا دھچکا لگا ہے اور شرح نمو انتہائی کم رہی ہے۔
اب ایک طرف ہولناک سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے تو دوسری طرف ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کا رجحان بھی بدستور جاری ہے۔ حالیہ ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 0.15فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 46.82فیصد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق 27اپریل 2023ء کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران 44ہزار 175روپے ماہانہ سے زائد آمدنی رکھنی والا طبقہ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، جس کے لئے شرح مہنگائی 48.23فیصد رہی ہے جبکہ اس کے بعد والے ایک ہفتے کے دوران آلو، آٹا، انڈے، دال ماش، دال چنا، بیف، مٹن، گڑ، چکن، واشنگ سوپ، روٹی، چاول، ماچس، لہسن، کھلا دودھ اور دہی سمیت مجموعی طور پر 21اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ پیاز، ٹماٹر، چینی ، دال مسور، سرسوں کا تیل اور ایل پی جی پر مشتمل 7اشیاء سستی ہوئیں اور 7اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مستحکم رہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہفتہ وار بنیادوں پر گزشتہ ہفتے کے دوران آلو 8.22فیصد، آٹا 2.65فیصد، چکن 1.75فیصد، ایری سکس نائن چاول 1.01فیصد، سادہ روٹی 1.13فیصد اور گڑ 1.23فیصد مہنگا ہوا جبکہ ٹماٹر 19.20فیصد، پیاز 1.40فیصد، چینی 1.19فیصد، ایل پی جی 1.09فیصد، دال مسور 0.98فیصد اور سرسوں کا تیل0.39فیصد سستا ہوا۔ وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ 27اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران حساس قیمتوں کے اشاریہ ( ایس پی آئی) کے لحاظ سے گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں ملک میں مہنگائی کی شرح 46.821فیصد رہی ہے۔ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ ہفتے کے دوران حساس قیمتوں کے اشاریہ کے لحاظ سے سالانہ بنیادوں پر 17ہزار 732روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لئے مہنگائی کی شرح 41.54فیصد، 17ہزار 733روپے سے 22ہزار 888روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لئے مہنگائی کی شرح 46.39فیصد رہی۔ اسی طرح 22 ہزار 889روپے سے 29ہزار 517روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کے لئے مہنگائی کی شرح 46.36فیصد، 29 ہزار 518روپے سے 44ہزار 175روپے ماہانہ تک آمدنی والوں کے لئے 46.55فیصد رہی جبکہ 44ہزار 176روپے ماہانہ سے زائد آمدنی رکھنے والے طبقے کے لئے مہنگائی کی شرح 48.23فیصد رہی۔
معاشی ماہرین کے مطابق معیشت اور حکماء کے مطابق انسانی معدہ تھوڑی بہت بداعتدالی کی وجہ سے خراب نہیں ہوتے بلکہ ایک عرصے تک اگر اصولوں کی خلاف ورزی کی جائے تو ان دونوں کا بیڑا غرق ہوتا ہے اور پھر انہیں درست اور روبصحت کرنے کے لئے بھی لمبے علاج اور مرحلہ وار مثبت اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایوب خان کے دور سے جو قرض خورانی شروع ہوئی تھی اس نے پچھلے 20سال سے پاکستانی معیشت کو آئی سی یو میں ڈال رکھا ہے اور یہ مسلسل قرضوں اور امداد کی ڈرِپ پر چل رہی ہے۔ خود سے مسلط کردہ حالات اور بہت سالوں سے اپنائی گئی پالیسیوں کے اثرات اب یہ ہیں کہ ہماری کرنسی رل گئی ہے۔ ہمارا پاسپورٹ بے وقعت ہو گیا ہے اور ہم دوستوں کی امداد کے دست نگر ہو کر رہ گئے ہیں۔ اوپر سے گزشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے جو سیاسی رسہ کشی جاری ہے اس میں عام پاکستانی کے مفادات کو یکسر پس پشت ڈال دیا گیا ہے جبکہ مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بجٹ آنے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہو گا۔ گو کہ کچھ لوگ اس خام خیالی میں ہیں کہ اگلے پانچ سال میں پاکستان کا قرض ختم ہو جائے گا حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہو گا کیونکہ اس سال اگر مثال کے طور پر آپ نے 20ارب دینے ہیں تو وہ آپ کے پاس تو نہیں۔ ظاہر ہے آپ کہیں اور سے قرض لے کر دیں گے۔ اس طرح قرض در قرض اور سود در سود اور وہ بھی پچھلے کئی سالوں کی مہنگائی اور معاشی بداعتدالی کے مارے عوام کے خون پسینے کی کمائی کے بھروسے پر جو بیروزگاری اور کسمپرسی سے آخری ہچکیاں لے رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان اپنی زندگی میں سے صرف چار سال چھوڑ کر ہر سال تجارتی خسارے میں جاتا رہا ہے۔ صنعتی بے چارگی کے باعث دیگر ممالک سے زیادہ چیزیں خریدتا اور انہیں کم بیچتا ہے یعنی درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہیں۔ بیلنس آف پیمنٹ کے مسائل ہیں۔ یقیناً ہماری معیشت کو اس نہج تک ملکی اشرافیہ کے پے در پے غلط فیصلوں نے پہنچایا ہے۔ حکومتوں میں فوج کی براہ راست مداخلت رہی ہے۔ فوج ایک عرصے تک اقتدار میں رہی۔ پھر فوج کی بالواسطہ مداخلت بھی رہی۔ جبکہ حال ہی میں ہم نے ہائبرِڈ نظام دیکھا۔ یعنی 75سال میں ہم نے ملک کے اندر تجربات ہی دیکھے ہیں۔ گو کہ موجودہ حالات کے ہم سب ذمہ دار ہیں مگر سیاسی جماعتیں اپنی جان نہیں چھڑا سکتیں۔ ان کے ذمے جو الزام آتا ہے وہ انہیں قبول کرنا پڑے گا۔ اگر اس ملک میں اصلاحات نہیں کی گئیں یا بیوروکریسی ٹھیک نہیں ہوئی تو ریاست کا نظام ٹھیک نہیں ہوگا۔ سیاستدانوں کے اوپر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ملک کی اسٹیبلشمنٹ پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ عدلیہ بھی ذمہ دار ہے کہ وہ اس ملک میں انصاف نہیں دے سکی۔ عدالتی نظام اس قدر ناقص ہے کہ اگر آج بھی آپ کوئی سول کیس فائل کریں تو انصاف ملنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ ہماری آج ڈوبتی معیشت کا المیہ یہ ہے کہ پچھلے بیس سال میں کسی بھی سیاسی جماعت یا ماہرِ معاشیات نے کوئی حل نہیں نکالا اور نہ ہی کوئی بحث ہوئی۔ افسوس کہ ان حالات پر کوئی بیانیہ نہیں بنا اور نہ ہی کوئی حل نکل سکا جبکہ سیاست دان اپنے سیاسی مقاصد کے لئے نت نئے بیانیے بنا لیتے ہیں۔ سیاست دان، فوج، عدلیہ، بیوروکریسی سب موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں۔ اس جرم میں دیگر شراکت دار مثلآ مذہبی مبلغ، اساتذہ، میڈیا، سوشل میڈیا، دانشور اور مصنف بھی ہیں۔ آج بھی سیاسی اور معاشی استحکام کے لئے تمام ذمہ داروں کو اپنے لوگوں کے ساتھ سچ بولنا پڑے گا اور حب الوطنی کو لفاظی کے طور پر نہیں کردار و عمل سے ثابت کرنا پڑے گا۔ ایک واضح اجتماعی پالیسی بنانا پڑے گی۔ مجموعی اتفاق پیدا کرنا ہو گا۔ ہر صوبے و طبقے سے نمائندگی لینا ہو گی جو سیاست دان مقبولیت اور دیانتداری کے زعم میں مبتلا ہے اور مجموعی پالیسی کی تیاری پر آمادہ نہیں اسے قومی دھارے سے نکال باہر جائے۔ اور ایک مضبوط اور مربوط لائحہ عمل تیار کیا جائے تاکہ لوگوں کی خواہشات، ضرورت اور مفادات کے مطابق معاشی پالیسی بنائی جا سکے۔ ایسی پالیسی جو برسوں چل سکے۔ جس سے اصلاح اور کامیابی یقینی ہو ورنہ یہ عارضی اقدامات معیشت اور سیاست دونوں کو مزید عدم استحکام کا شکار کر دیں گے۔