Column

ہر پاکستانی 216708کا مقروض

روہیل اکبر

عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے بعد میں سمجھتا تھا کہ اب پاکستان ضرور ترقی کر لے گا کیونکہ عمران خان اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھا جسے ہٹا دیا گیا اسکی پارٹی میں کوئی لیڈر نہیں بچا سبھی دم دبا کر بھاگ چکے ہیں، فیاض الحسن چوہان جیسا شخص جسے وزارت نہیں بلکہ وزارتوں سے نوازا گیا، پہلی بار وزیر بننے کے بعد جس کے پاس مساج کروانے کے بعد دینے کو بھی پیسے بھی نہیں تھے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا، وہ بھی گلے شکوے سے پارٹی چھوڑ گیا۔ اس وقت سیاسی میدان تقریبا صاف ہے، قومی اسمبلی میں پہلے ہی میدان صاف ہو چکا ہے، وہاں بھی کوئی اپوزیشن نہیں ہے۔ راجہ ریاض ہاتھی کا وہ دانت ہے جو صرف دکھاوے کے لیے ہوتا ہے۔ پی ڈی ایم اور باقی ساری جماعتیں بمعہ اسٹیبلشمنٹ حکومت میں ہیں۔ اس لیے پاکستان میں سیاسی استحکام آئے گا، ساری پارٹیاں آپس میں شیر و شکر ہوں گی، نہ کوئی دھرنا ہوگا اور نہ ہی کوئی احتجاج، فیس بک پر بھی تنقیدی آوازیں دب جائیں گی۔ اسمبلی میں بھی اپوزیشن کی تقریروں اور روز کی چخ چخ سے جان چھوٹ جائے گی۔ اب پاکستان چند سال میں چین سے بھی زیادہ ترقی کر لے گا کیونکہ اب حکومت کی باگ ڈور کہنہ مشق، ایماندار دنیا اور عالم اسلام کے بہترین رہنمائوں نواز شریف بمعہ اہل خانہ، زرداری بمعہ اہل خانہ، فضل الرحمن بمعہ اہل خانہ اور دیگر زعماء کے ہاتھوں میں ہیں۔ اس کے علاوہ اس حکومت کے ساتھ حضرت مولانا فضل الرحمان مد ظلہ ان کی جماعت سے منسلک ہزاروں علما اور ان کے لاکھوں پیروکاروں کی دعائیں بھی ساتھ ہوں گی اور ساتھ میں مولانا صاحب نے تھائی لینڈ میں جو چلہ کشی کی ہے، اس کے بھی اثرات نمایاں ہو نگے، جلد ہی روپیہ کی قدر ڈالر سے بڑھ جائے گی، ملک میں امن امان کا دور دورہ ہوگا۔ صنعتی اور ٹیکنالوجیکل انقلاب برپا ہوجائے گا۔ گوگل، فیس بک اور دوسری ٹیک کمپنیوں کے سی ای اوز پاکستانی ہوں گے۔ یورپ والے پاکستانی یونیورسٹیوں میں داخلے اور پاکستانی ویزے کے لئے منتیں ترلے کرتے نظر آئیں گے کیونکہ ہمارا تعلیمی نظام دنیا کا سب سے بہترین تعلیمی نظام ہوگا۔ ہر سال ہزاروں لاکھوں سائنسدان ان یونیورسٹیوں سے فارغ ہوکر نت نئی ایجادات کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ امریکہ، چین اور یورپ سے لوگ لاعلاج امراض کیلئے پاکستانی ہسپتالوں میں آئیں گے۔ جی ڈی پی گروتھ ریٹ 22فیصد سالانہ ہوجائیگی، پاکستانی اگر ارب پتی نہیں تو کروڑ پتی ضرور ہو جائیں گے۔ مہنگائی کا نام و نشان نہیں رہیگا۔ زر مبادلہ کے ذخائر کھربوں ڈالر ہو جائیں گے اور بہت سارے ممالک ہمارے مقروض ہونگے مگر نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ سبھی تدبیریں الٹی ہوگئیں اور ملک میں اس وقت کم شرح نمو، آسمان کو چھوتی مہنگائی، بے روزگاری، گرتی ہوئی سرمایہ کاری، وسیع ہوتا ہوا تجارتی اور مالیاتی خسارہ، غیر یقینی طور پر کم غیر ملکی ذخائر، قرضوں کا بڑھتا ہوا حجم اور بیرونی عدم توازن کم ہونے کا نام نہیں لے رہا، جس کی بنیادی وجہ پالیسیوں میں عدم مطابقت، سیاسی عدم استحکام اور متضاد اقتصادی پالیسیاں ہیں جبکہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عملدرآمد بشمول توانائی کی سبسڈی ختم کرنے سے عام لوگوں کے معاشی حالات مزید خراب ہوگئے، جس کی وجہ سے ہم بلند افراط زر، روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر گراوٹ اور اشیائے ضروریہ کی شدید قلت کے ساتھ ایک مفلوج معاشی بحران کا شکار ہو گئے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 10 فروری 2023تک زرمبادلہ کے ذخائر 3.1بلین ڈالر کی خطرناک حد تک گر چکے ہیں۔ ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات 60کھرب روپے سے زائد ہو چکے ہیں، ہر شہری پر قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک 21فیصد اضافے سے 216708روپے تک پہنچ گیا ہے جو دن بدن بڑھتا ہی رہے گا اور یہی قرضہ ہماری معاشی بدحالی کی وجہ ہے پوری قوم ملکر اس قرضہ کو اتارنے میں لگی ہوئی ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنہوں نے ملک کے نام پر قرضے لے کر خود کھائے وہی ادا کریں، اس وقت بھی ملک میں عالمی مالیاتی ادارے کا 23واں پروگرام چل رہا ہے اور ملک آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے جا رہا ہے۔ آج ہم اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے بھی دوچار ہیں۔ حکمرانوں اور مقتدر قوتوں کی لوٹ مار کی وجہ سے عوام نان شبینہ کے محتاج ہو گئے ہیں۔ ہر طرف بدعنوانی کا دور دورہ ہے، تعلیم و صحت، خوراک سمیت ہر پراجیکٹ میں کمیشن خور مافیا اپنے دانت تیز کئے بیٹھا ہے بڑھتی غربت اور بے روزگاری نے نوجوانوں کو بدعنوانی، جہالت، ناانصافی اور وسائل کی لوٹ مار نے تباہ کر دیا، مفت آٹا سکیم میں 22ارب روپے سے زائد کی کرپشن نے حکمرانوں کے عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے۔ لوٹ مار کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس قسم متعدد واقعات ماضی میں بھی رونما ہو چکے ہیں جن میں اربوں روپے خورد برد کئے گئے۔ غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے نام پر اربوں روپے کی بوگس پراجیکٹ بنائے جاتے رہے، ملک و قوم کا یہ المیہ رہا ہے کہ جو بھی بر سرا قتدار آیا، اس نے لوٹ مار اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے سوا کچھ نہیں کیا۔ قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹاگیا اور کرپشن نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ سبھی ادارے تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں، کرپٹ افراد کی کرپشن کو روکنے والا کوئی نہیں، نیب سمیت چیک اینڈ بیلنس بر قرار رکھنے اور انسداد بد عنوانی کے تمام ادارے ناکام اور ان کے تمام حربے بے سود دکھائی دیتے ہیں۔ آئے روز کرپشن کی داستانیں منظر عام پر آ رہی ہیں اور دنیا مریخ پر پہنچ گئی، مصنوعی ذہانت اور آئی ٹی کے میدانوں میں انقلاب آرہے ہیں اور ہمارے یہاں 80فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ بجٹ بنانے کے لیے حکومت ٹکٹکی باندھ کر آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہی ہے، ادارے، سیاسی جماعتیں مفادات کے لیے دست و گریبان اور عوام غربت، مہنگائی اور بے روزگاری سے لڑ رہے ہیں۔ وسائل پر دو فیصد حکمران اشرافیہ قابض ہے، جنہوں نے قوم کو تعصبات پر تقسیم کیا گیا۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں نے قوم کو تقسیم کر کے فائدہ اٹھایا اور اقتدار پر قابض رہے، جن کی غلط معاشی پالیسیوں کا نتیجہ غیر موثر اقتصادی پیداوار، بے روزگاری، افراط زر، آمدنی کی تقسیم میں عدم مساوات، تجارتی خسارے اور کم سرمایہ کاری کا باعث بنتا ہے زراعت میں جدت نہ ہونے کی وجہ سے تباہی کی جانب گامزن جعلی ادویات کی بھر مار ہے۔ خیر سے محسن نقوی نے جعلی زرعی ادویات پر قابو پانے کا اعلان کر دیا ہے، جس سے کسانوں کو کچھ نہ کچھ فائدہ تو پہنچے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button