Column

اب وہ روتا ہے چپ نہیں ہوتا

سیدہ عنبرین

درجہ حرارت بڑھنے کے بعد سڑکوں پر ٹریفک کچھ کم ہوگئی ہے جبکہ آرمی ایکٹ کے تحت دہشت گردی میں ملوث افراد کی گرفتاریوں کے بعد سوشل میڈیا پر ٹریفک میں نمایاں کمی ہے، بے بنیاد الزامات لگانے والے مقتدر اور منفرد اداروں کی تضحیک کے پراجیکٹ پر بھاری معاوضوں کے عوض کام کرنے والے گوشہ نشین ہوگئے ہیں، کچھ نے تو باقاعدہ یو ٹرن لیکر کفارہ ادا کرنا شروع کر دیا ہے، ان میں درجنوں ایسے ہیں جنہوں نے پچیس تیس برس ایک ادارے کا نمک کھایا پھر وہ دشمن کے اور اس کی سوچ کے آلہ کار بن کر نمک حرامی کرنے پر تل گئے، ایسے افراد کا پہلا اور آخری علاج ایک ہی ہے، ملک دشمن اور فوج دشمن سرگرمیوں میں ملوث ان افراد کی پنشن ختم اور مراعات ضبط کرکے ان پر بھی آرمی ایکٹ کی روشنی میں ان کے ساتھ تیز ترین انصاف کیا جائے تاکہ اس چلن کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو، تاکید ضروری ہے کہ اس معاملہ میں خواتین اور مردوں کے ساتھ ساتھ برابری کا سلوک کیا جائے تاکہ خواتین کو یہ شکوہ نہ رہ جائے کہ وہ تو مردوں کے برابر تھیں لیکن ان سے مردوں کے برابر سلوک نہیں کیا گیا۔
گزشتہ نصف صدی کی کہانی یہی ہے کہ کسی سیاسی جماعت کی پیش قدمی جاری ہو تو لوگ اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت اس میں شامل ہوتے رہتے ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی شمولیت کی خبر مع تصویر اخبارات میں نمایاں جگہ پر شائع ہو اور ٹی وی پر اس کے ٹکر دن بھر چلتے رہیں، کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک اداکارہ و ماڈل کو بھی ایسا ہی شوق چرایا، اس نے بھی ہزاروں ساتھیوں سمیت شمولیت کا اعلان کیا، اسے یقین تھا کہ اب تو زمان پارک سے بلاوا آیا کہ آیا، بلاوا نہ آنے کی کوئی خاص وجہ بھی نہ تھی، اداکارہ کے پاس وہ تمام میرٹ موجود تھا جو اسے کسی بھی بلند کنٹینر تک لے جاسکتا ہے لیکن شومئی قسمت اس نے فیصلے میں دیر کردی۔7مئی کو اس نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی،8مئی کے بعض اخبارات میں صفحہ اول پر اپنی شمولیت کے اعلان کی تصویر چھپوائی اور اس سے اگلے ہی روز9مئی کا درد ناک سورج طلوع ہوا جس نے تصور کی گئی تمام خوشیوں اور کامیابیوں کو درد میں بدل ڈالا ہے، اب پریشانی یہ ہے کہ ایک روزہ دل بستگی کے ساتھ اس وابستگی کو ختم کرنے کا اعلان کیسے کیا جائے، ماڈل و اداکارہ ازیکا ڈینیل نے پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی سے ملاقات کی، گویا ان کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کی پھر اس ملاقات کی تصویریں اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر شیئر کیں اور باقاعدہ عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا جس کے بعد علی زیدی نے ازیکا ڈینیل کے گلے میں پارٹی پرچم ڈالا اور انہیں پارٹی میں خوش آمدید اور وش یو گڈ لک کیا۔ علی زیدی اور ازیکا ڈینیل دونوں آنے والے دن سے بے خبر تھے کہ ان کی بیڈ لک سرپر کھڑی ہے۔
9 مئی کے بعد سے شروع ہونے والی گرفتاریوں اور پکڑ دھکڑ کے ٹھیک چوتھے روز زارو قطار پریس کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے بعد اہم اور نامور شخصیات نے تحریک انصاف سے اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت علیحدگی اختیار کرنا شروع کردی تادم تحریر، ارکان قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی و بلدیاتی نمائندوں اور آئندہ ٹکٹ کے امیدواروں سمیت ایک سو سے زائد اہم شخصیات تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے کا اعلان کر چکی ہیں جن پر ان کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ انہیں اس علیحدگی کیلئے مجبور کر دیا گیا، ایسے میں ایک قومی سطح کے سیاستدان اور سیاسی جماعت کے ایسے سربراہ بھی ہیں جو پی ٹی آئی کے اتحادی بن گئے تھے انہیں گرفتار کیا گیا نہ ان پر کوئی مقدمہ بنا مگر وہ اس کے باوجود پی ٹی آئی کو داغ مفارقت دے گئے ہیں، نام نامی اعجازالحق ہے، سابق صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے ہیں۔
اعجاز الحق اس اعتبار سے نہایت دانش مند ثابت ہوئے کہ انہوں نے بھلے وقتوں میں بھی مختلف جانب سے دیئے گئے مشوروں کے باوجود اپنی مسلم لیگ کو تحریک انصاف میں ضم نہ کیا صرف اتحاد کیا۔ کہتے ہیں اتحاد کئے ہی اس لئے جاتے ہیں کہ انہیں توڑا جاسکے۔ پس اعجاز الحق نے نہایت مناسب وقت پر اعلان علیحدگی کر دیا ہے، اب وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ نیا سیاسی اتحاد کر سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ق کے سابق سربراہ سینئر سیاست دان پرویز الٰہی تحریک انصاف میں ضم ہونے کیلئے پر تولنے لگے تو انہیں دوستوں نے سمجھایا کہ اتحاد میں ہرج نہیں لیکن اپنی پارٹی کو تحریک انصاف میں ضم کرنا سیاسی خودکشی سے کم نہ ہوگا۔ اس وقت پرویز الٰہی اور مونس الٰہی، عمران خان کی محبت میں گرفتار تھے انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ محبت پروان چڑھنے سے قبل ہی حالات یہ پلٹا کھائیں گے اور ان کی گرفتاری کیلئے لاہور کا چپہ چپہ چھان مارا جائے گا، پولیس ان کے گھروں میں گھسنے کیلئے دن دیکھے گی نہ رات اور آنے والے ہر دن کے ساتھ ان پر تحریک انصاف سے علیحدگی کیلئے دبائو بڑھنا شروع ہو جائیگا، ان کے بارے میں واقفان حال کہتے ہیں کہ صبح کا بھولا شام ڈھلے گھر آنے کو ہے، بس وہ صرف یہ پوچھ رہا ہے کہ وہاں سے واپسی کے بعد جانا کہاں ہے۔
کچھ ملتا جلتا حال عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا ہے، وہ روزانہ کسی نامعلوم مقام سے فون کرکے اپنے جذبات و احساسات عوام تک پہنچاتے ہیں لیکن اندر کی بات یہ ہے کہ ان کے پیرو مرشد راولپنڈی والی سرکار کو اس مقام کی خوب خبر ہے، پیر صاحب نے دیدہ دانستہ کچھ دیر کیلئے آنکھیں بند کر رکھی ہیں جبکہ شیخ صاحب انہیں متوجہ کرنے کیلئے روزانہ میڈیا پر بذریعہ فون حاضری لگواتے ہیں، شیخ صاحب جہاندیدہ سیاست دان ہیں، انہیں خود سوچنا چاہیے، توجہ دینے والے اب اس وقت ایک سیٹ کی پارٹی پر توجہ دیں یا جہانگیر ترین کی پارٹی کی طرف توجہ مرکوز رکھیں جن کی طرف سو کے قریب پرانے نئے سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی لپک رہے ہیں، سین کچھ ایسا لگ رہا ہے کہ پرانی کاسٹ نئے ڈائریکٹر پروڈیوسر کے ساتھ ایک نئے بینر تلے جمع ہورہی ہے، جہاں کہانی تو وہی پرانی ہوگی کہ ہم پاکستان اور نظام بدلنے آئے ہیں، البتہ میوزک کچھ بدلا بدلا ہوگا، عین ممکن ہے پہلے کی نسبت مذہبی ٹچ زیادہ اور نچ پنچابن نچ کم ہو، چورن تو سبھی بک جاتے ہیں اصل چیز تو مارکیٹنگ ہے، درست وقت پر درست پراڈکٹ کو درست گاہکوں کے ہاتھوں تک پہنچانا اس کی روح ہے، خریدار پیکٹ کی پرنٹنگ پیکنگ دیکھ کر مال خرید لیتا ہے، یہ الگ بات کہ پیکٹ میں مال سے زیادہ ہوا بھری ہوتی ہے جس کا پتہ پیکٹ کے ایک پٹاخے سے کھیلنے کے بعد ہوتا ہے، آج سے ٹھیک پندرہ روز بعد آرمی ایکٹ کے تحت دہشت گردی، توڑ پھوڑ اور ملٹری تنصیبات کو نذر آتش کرنے والے مجرموں کے مقدمات کے فیصلے سامنے آنے لگیں گے، سزائے موت، عمر قید اور مختلف مدتوں کی قید با مشقت جرم کے حساب سے دی جائے جسکے بعد باد نسیم کے چلے بغیر ہی کئی بیماریوں کئی اسیروں کو بے وجہ قرار آجائے گا۔ شعر ملاحظہ فرمائیے
وہ جو کہتا تھا کچھ نہیں ہوتا
اب وہ روتا ہے چپ نہیں ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button