Column

سانحہ 9مئی ، علی زیدی اور سلیم سرور جوڑا

یاور عباس

سانحہ 9مئی کے بعد ملک کی سیاسی صورتحال میں بھونچال آچکا ہے، شاید ہی کوئی پاکستانی ہو جس نے اس واقعہ کی نہ صرف شدید الفاظ میں مذمت کی ہو بلکہ اس واقعہ میں ملوث عناصر کے خلاف موثر کارروائی کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ریاست کے اندر ریاست کی رٹ ہی قائم ہونی چاہیے، سانحہ 9مئی کے حوالے سے سیاسی جماعتوں میں اختلاف ضرور موجود ہے ، پی ڈی ایم کی حکومت اس سانحہ کی آڑ میں پی ٹی آئی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہے۔ حکومت نے اس سانحہ کے بعد فوج اور عمران خاں کے درمیان نہ صرف خلیج حائل کر دی ہے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کو ملک دشمن قرار دیتے ہوئے ساری قیادت کو پابند سلاسل بھی کر دیا۔ پریس کانفرنس کے ذریعے پی ٹی آئی سے علیحدگی کے اعلانات بھی کروائے جارہے ہیں۔ جس پولیٹیکل انجینئرنگ کے خلاف پی ڈی ایم میں موجود جماعتیں ماضی میں احتجاج کرتی رہی ہیں، آج ان کے زیر نگرانی ایک مرتبہ پھر پولیٹیکل انجینئرنگ ہورہی ہے۔ صرف پریس کانفرنس کرنے والوں کو سنگین مقدمات کے باوجود رہائی اور آزادی مل رہی ہے۔ ماضی میں سیاسی پارٹیاں تبدیل کرنے والے ایک بار پھر پی ٹی آئی سے علیحدگی کے بعد نئے سیاسی گھونسلوں میں جا کر بیٹھنے کیلئے تیار ہیں ۔
سانحہ 9مئی کے بعد حکومت اور فوج کی جانب سے پی ٹی آئی کے خلاف مسلسل سخت ردعمل آرہا ہے جبکہ عمران خان اس معاملے کی شفاف انکوائری کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کو ختم کرنے کے لیے ان کے خلاف یہ سازش کی گئی ہے ، ریاست کو غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کے ذریعے فریقین کا مطمئن کرنا چاہیے کیونکہ یہ الزامات صرف عمران خاں کی جانب سے ہی نہیں بلکہ بہت سارے دوسری پارٹیوں کے رہنمائوں نے بھی ایسے خدشات کا اظہار کیا ہے اور حکومتی اتحاد میں موجود کچھ اتحادی بھی اس حوالے سے شفاف انکوائری چاہتے ہیں۔ صرف پریس کانفرنس کے ذریعے پارٹی چھوڑنے والوں کو فوری ریلیف دینے سے بھی یہ شکوک و شبہات بڑھے ہیں۔ سیاسی رہنمائوں کو اقتدار کے مزے لینے کے بعد مشکل وقت میں پارٹی کے لیے قربانیاں دینا چاہیے اور اپنے نظریہ پر ثابت قدم رہنا چاہیے ، یہی جمہوریت کی بقاء ہے ۔
سانحہ9مئی کے بعد ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں پاک فوج کی حمایت میں ریلیاں نکالی جارہی اور پوسٹر آویزاں کئے جارہے ہیں، ایسا پہلی بار نہیں ہوا ماضی میں بھی جب مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی ، مولانا فضل الرحمان جب فوج کے خلاف آوازیں اُٹھاتے تھے تو حکومتی پارٹی کے لوگ فوج کی حمایت میں ریلیاں نکال کر اظہار یکجہتی کرتے رہتے تھے۔ پاکستان کے عوام پاک فوج کی عزت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے، اس بات کا اندازہ ریلیوں سے نہیں لگایا جانا چاہیے بلکہ عملی طور پر آج اگر پاکستان کی بھارت سے جنگ ہوجاتی ہے تو پوری پاکستانی قوم دل و جان سے پاک فوج کے لیے نہ صرف دعائیں کرے گی بلکہ شانہ بشانہ ساتھ دے کر دشمن کے ارادوں کو خاک میں ملا دے گی۔ سیاسی جماعتیں یا پھر عوام اگر فوج پر تنقید کرتے ہیں تو وہ سیاست میں مداخلت کی وجہ سے کرتے ہیں اور ملک کی کوئی ایسی جماعت نہیں جو فوج کی سیاست میں مداخلت کے حوالے سے احتجاج نہ کر چکی ہو، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جمعیت علمائے اسلام، پی ٹی آئی سمیت دیگر چھوٹی بڑی جماعتیں ماضی میں ہونے والے ہر انتخابات کو دھاندلی زدہ اور انجینئرڈ قرار نہ دے چکے ہوں۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے متعدد بار سیاست سے لاتعلقی کے اعلانات بھی ہوتے رہتے ہیں۔
2018ء سے قبل عمران خاں کی مقبولیت اور ریاستی اداروں کی محبت کی بناء لوگ جس برق رفتاری سے پارٹی میں شامل ہوئے تھے، اب اس سے ڈبل رفتار سے پارٹی چھوڑنے کے اعلانات مل رہے ہیں کوئی گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ پی ٹی آئی کے رہنما اتنی جلدی عمران خاں سے راہیں جدا کر لیں گے، فیاض الحسن چوہان ، فردوس عاشق اعوان اور کچھ دیگر نے تو باقاعدہ عمران خاں کے خلاف اپوزیشن کا بھی کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں ابھی بہت سارے لیڈر عمران خاں کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں اور پارٹی کے لیے جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں جبکہ چوریاں کھانے والے مجنوں نئے تھال پر جا بیٹھنے کے لیے تیار ہیں، تاکہ اگلی حکومت میں بھی وہ چوریاں کھا سکیں۔ پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی کی گرفتاری کے بعد گھر میں نظر بندی پر ملک بھی میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ یہ بھی پارٹی چھوڑنے لگے ہیں مگر پریس کانفرنس میں علی زیدی نے ایک جملہ بول کر خان کا ساتھ چھڑوانا ہے تو مجھے گولی مار دو  کہہ کر خوب مقبولیت حاصل کی اور ملکی سیاست کا رُخ بدل دیا مگر دو دن کے بعد ہی جب علی زیدی نے تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ پی ٹی آئی گجرات کے صدر سابق ایم پی اے سلیم سرور جوڑا، جنہوں نے ماضی میں بھی الزام لگایا تھا کہ ’’ وہ‘‘ چاہتے ہیں کہ میں عمران خاں کا ساتھ چھوڑ دوں، سانحہ 9مئی کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا تو وہ ڈٹ کر کھڑے رہے اور عدالت میں انہیں ہارٹ اٹیک بھی ہوگیا، ہسپتال گئے، ڈاکٹرز نے سرجری کا کہا، گجرات سے لاہور اور لاہور سے پھر گجرات واپس لایا گیا، ضمانت بھی مل گئی مگر گوجرانوالہ پولیس نے پھر گرفتار کر لیا اور گرفتاری کے موقع پر ایک بار پھر انہوںنے کہہ دیا کہ مجھے گولی مار دو، میں عمران خاں کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ دیکھتے ہیں کہ سلیم سرور جوڑا کی ہمت کو علی زیدی کی طرح توڑا جاسکے گا یا نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button