Column

عمران خان کا حکومت کے ساتھ مذاکرات کا سندیسہ

قاضی محمدشعیب ایڈووکیٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت مقدمے کے دوران پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے ساتھ الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز ہوا جو بعض سیاسی وجوہات کے تناظر میں بار بار تعطل کا شکار ہوتے رہے۔ اس دوران 9مئی 2023ء کو اسلام ہائی کورٹ کے احاطے سے نیب کی جانب سے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے اچانک گرفتار ی پر ملک بھر میں پی ٹی آئی کارکنان نے عمران خان کی کال پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اہم دفاعی اور سرکاری املاک کو نقصان پہچانے کے ساتھ ساتھ شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کی، جن کے خلاف فوجی قوانین کے تحت مقدمات درج کر کے ملک بھر سے گرفتاریوں کا عمل جاری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بڑے بڑے سیاسی قائدین اور عہدیداران نے گرفتاریوں سے بچنے کے لیے عمران خان لاتعلقی کا اعلان کیا ہے اور پی ٹی آئی کا ہم خیال گروپ کے طور پر پارٹی کو بھی خیرباد کہ دیا ہے۔ عمران خان نے حکومت نے مذاکرات جاری رکھنے کی پیش کی تو مسلم لیگ ( ن) کے مرکزی رہنما وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نجی ٹی وی پروگرام میں کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان الیکشن کی تاریخ کے علاوہ مذاکرات کامیاب ہو گئے تھے۔ لیکن 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد عمران خان کے قوم سے معافی مانگے بغیر پی ٹی آئی سے مذاکرات نہیں ہوسکتے ۔ سیاسی ماہرین کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے سیاسی منشور کے تحت دیگر سیاسی جماعتوں سی مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھتی ہے۔ ملک میں جمہوریت کے فروغ اور جمہوری اداروں کے تحفظ کے لیے مذاکرات سیاسی بحران کے پرامن حل کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی مفاد کے لیے ایک میز پر آمنے سامنی بیٹھ کر تمام معاملات کا مثبت اور قابل عمل راستہ تلاش کرتے ہیں۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل اور بے نظیر بھٹو کی لیاقت باغ راولپنڈی میں شہادت پر ملک بھر میں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچائے بغیر پیپلز پارٹی کی جیالوں نے پرامن احتجاج لیکن پاکستان کی تاریخ میں عمران خان کی گرفتار ی پر پی ٹی آئی نے دفاعی تنصیبات کو نقصان پہنچا کر ملک دشمن قوتوں کے پاکستان کے خلاف ایجنڈے کو تقویت دی۔ جس پر پور ی قوم سکتے میں ہے۔ پاکستان میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا، اس لئے بعض مفاد پرست سیاستدان مفاد عامہ کی آڑ میں الیکشن کے قبل برسر اقتدار سیاسی پارٹی کو چھوڑکر ایک نئی سیاسی پارٹی کو جوائن کرتے رہتے۔ پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم پر سیاست کرنے والے زیادہ تر سیاستدان مختلف پارٹیاں بدل بدل کر آئے، جن کو اسٹبلیشمنٹ کی آشیر باد حاصل تھی، 9مئی کو دفاعی تنصیبات پر حملہ براہ راست فوج پر حملہ ہے۔ اس کے نتائج بھی بہت خطرناک ہیں۔ پارٹی چھوڑنے والے اکثر ایسے لوگوں کی تھی جن کو پارٹی نے نظر انداز کیا یا ان کو ٹکٹ نہیں دیا۔ ان کو اس بات کا بھی قوی اندیشہ تھا کہ مستقبل میں بھی ان کو پارٹی قیادت کی جانب سے ٹکٹ نہیں ملے گا۔ جس پر عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ پارٹی چھوڑنے والوں پر دبائو تھا۔ اس لئے انہوں گرفتاری سے بچنے کے لیے پریس کانفرنس کے دوران پارٹی چھوڑنے کے اعلانات کر کے پی ٹی آئی سے اپنے راستے جدا کر لئے۔ فیصل واوڈا نے تو بہت پہلے ارشد شریف کے قتل کے روز نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں انکشاف کیا تھا کہ عمران خان کو سانپ نما دوستوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ جو اپنے مفاد کی خاطر پارٹی کے خلاف سازشوں میں ملوث ہیں۔ جس کی منفی سیاست کی بدولت پی ٹی آئی کی شدید نقصان ہو ا ہے۔ مبصرین کے مطابق 9مئی سیاسی و عسکری قیادت کے مشترکہ ردعمل سے یہ پوری طرح واضح ہو گیا ہے کہ9مئی کے واقعات کے بعد ایک لکیر کھنچ گئی ہے۔ جس کا واضح ثبوت ان واقعات میں ملوث پی ٹی آئی اور دیگر افراد کے خلاف ملک گیر کریک ڈائون کے صورت میں سامنے آیا ہے۔ جن کی خلاف فوجی قوانین کے تحت مقدمات قائم کر کے مزید کارروائی شروع کی گئی ہے۔ آئی ایس پی آر نے 9مئی کو یوم سیاہ قرار دیتے ہوئے پیغام دیا کہ پہلے تحمل سے کام لیا اور اب شدید ردعمل دیا جائے گا۔ جو کام دشمن 75سال میں نہ کر سکے وہ کام سیاسی لبادہ اوڑھے ایک گروہ نے کر دکھایا۔ اسی طرح 17مئی2023کو سیالکوٹ میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ شہداء اور ان کی یادگاروں کی بے حرمتی نہیں ہونے دیں گے۔ منصوبہ بندی کے تحت پیش آنے والے واقعات کی دوبارہ کسی بھی قیمت پر اجازت نہیں دی جائے گی۔ ذمہ داروں کو کٹہرے میں لائیں گے۔ تاہم عمران خان اور ان کی پارٹی کے ترجمانوں کے جانب سے بار بار مذمت کرنے کے باوجود ملک میں لگی آگ ٹھنڈی نہیں ہورہی۔ حالانکہ اس دن کی ذمہ داری موجودہ حکومت کے سر بھی جاتی ہے۔ جس نے جان بو جھ کر حساس علاقوں کی سکیورٹی انتظامات کو نرم رکھتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جلائو اور گھیرائو کے واقعات میں رکاوٹ نہ ڈالنا بھی ایک اہم سوال ہے اس لیے عمران خان اور پی ٹی آئی پنجاب کے صدر چودھری پرویز الٰہی نے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے فوری ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے جوڈیشنل کمیشن کے ذریعے تمام معاملے کی عدالتی تحقیقات کی استدعا کی ہے ۔ جبکہ فیصل آباد میں اپنے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے گھر پر پرتشدد حملے کو پنجاب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے فوری طور پر ناکام بنا دیا۔ سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی رئوف حسن نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں اپنی جماعت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی ایک نظریاتی جماعت ہے، جس میں اب بھی نظریاتی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ آئندہ الیکشن میں ان کی جماعت بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گی۔ ملک میں جاری سیاسی و اقتصادی بحران کے خاتمے کے لیے عمران خان موجودہ حکومت اور فوج سے بھی مذاکرات کرنے کے خواہاں ہیں۔ بعض سیاسی ماہرین نے موجودہ سنگین صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ دوسری سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکن اسٹیبلشمنٹ مخالف تھے مگر انہوں نے کبھی دفاعی تنصیبات پر حملہ نہیں کیا۔ پی ٹی آئی نے حملے کر کے پاکستان کی سیاست کو تشدد اور دہشت گردی کی جانب موڑ کر کے پورے ملک کو فوج مخالف سیاست کی آگ میں دھکیل دیا ہے۔ جسے پاکستان کے باشعور عوام نے 25مئی کو یوم تکریم شہداء کے دن پاک فوج کے ساتھ بھر پور یک جہتی کا اظہار کرکے پی ٹی آئی کے منفی نظریے کو مسترد کر دیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button