Ali HassanColumn

نئی سیاسی جماعت کے قیام کی کوشش

نئی سیاسی جماعت کے قیام کی کوشش

علی حسن
سوال یہ ہے کہ سیاست میں جو بھونچال آیا ہوا ہے، اس میں ایک گھنٹے آگے کی بات نہیں کی جاسکتی ہے۔ تحریک انصاف سے عمران خان کے دور اقتدار میں علیحدہ ہوجانے والی جہانگیر ترین اور علیم خان کے بارے میں خبریں ہیں کہ ایک نئی سیاسی جماعت کھڑی کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ یہ دونوں حضرات تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد سے نئی سیاسی جماعت قائم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ یہ موقع بہت اچھا لگا کہ تحریک انصاف سے لوگ ادھر ادھر جا رہے ہیں تو نئی پارٹی کھڑی کرنے میں کیا حرج ہے۔ پنجاب کی اہم سیاسی شخصیت جہانگیر ترین کا نئی سیاسی جماعت بنانے کا امکان ہے، جس کا اعلان جلد ہی ممکن ہے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان کی ملاقات ہوئی ہے جس میں نئی پارٹی بنانے سے متعلق مشاورت ہوئی۔ علیم خان کی طرف سے دئیے جانے والے ظہرانے کے شرکا نے تجویز دی کہ ہمیں کوئی پریشر گروپ بنانے کے بجائے نئی سیاسی پارٹی بنانی چاہیے۔ نئی سیاسی پارٹی بنانے سے عوام کے حقوق کا بہتر تحفظ کر سکیں گے۔ ظہرانے میں تجویز زیر بحث آئی کہ مزید رہنما پی ٹی آئی چھوڑنا چاہ رہے ہیں، انہیں ایک نیا پلیٹ فارم ملنا چاہیے۔
تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرنے والوں میں کوئی الزام لگاتا ہوا جارہا ہے، کوئی رندھی ہوئی آواز میں تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان کر رہا ہے۔ کوئی عہدوں سے ہاتھ اٹھا رہا ہے لیکن پارٹی میں رہنا چاہتا ہے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چودھری میڈیا سے گفتگو کے دوران جذباتی ہوگئے۔ عدالت میں اپنی پیشی کے موقع پر انہوں نے مختصر گفتگو کی اور کچھ اشعار بھی پڑھے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ عمران خان نے اس تحریک کو لاالہ الااللّٰہ کی تحریک کا نام دیا تھا۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اس تحریک کو چھوڑ دوں گا۔ دوران گفتگو وہ آبدیدہ ہوگئے۔ جب موسم میں جھکڑ چلتے ہیں تو اتنی تیزی سے کچے یا پکے ہوئے آم بھی نہیں گرتے ہیں جتنی تیزی کے ساتھ تحریک انصاف سے لوگ پارٹی کو چھوڑ رہے ہیں۔ وجہ کچھ بھی ہو، کیا بھی ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بنی بنائی اور سجی سجائی پارٹی ریت کا گھروندہ بنا دی گئی ہے۔ اس ریت کے گھروندے میں ترین اور علیم بھی اپنا گھروندہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ کیا جانے والے لوگوں کے بارے میں حتمی ہے کہ وہ اپنا سیاسی سفر کہاں تک اور کتنا جاری رکھیں گے۔ نئی سیاسی جماعت موجودہ سیاسی حالات میں کھڑی کرنا آسان ضرور ہے لیکن کیا اس جماعت کا کوئی مستقبل ہوگا؟ پاکستانی سیاست کے ماضی کو دیکھا جائے تو درجنوں سیاسی جماعتیں قائم ہوئیں لیکن برقرار نہیں رہ سکیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کی مقبولیت ہی اس کے مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے۔ ابتداء سے ملک میں پہلے مارشل لاء کے نفاذ تک مسلم لیگ میں مختلف ناموں سے دھڑے وجود میں آتے رہے۔ جنرل ایوب خان نے بھی اپنی پارٹی مسلم لیگ کے نام سے قائم کی اور اس کا نام کنونشن مسلم لیگ رکھا گیا تھا۔ ان کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ہی ان کی لیگ کا کوئی نام لیوا نہیں رہا تھا۔ بھٹو نے پیپلز پارٹی قائم کی تو اس میں بھی ادھر ادھر کے لوگوں نے شرکت کی تھی ۔ جنرل ضیاء کے مار شل لاء کے دوران بہت سارے لوگوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل کر لی تھیں۔ پیپلز پارٹی میں لوگوں کا آنا جانا لگا ہی رہتا ہے۔ اس دفعہ بھی پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے کمر بستہ ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے یہ ہھتکنڈے کسی بھی حالت میں اقتدار حاصل کرنے کے حربے ہیں جن سے اس ملک کو کسی طرح کو بھی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ بات چیت کرنا چاہتا ہوں تاکہ معلوم ہو سکے یہ سوچ کیا رہے ہیں، مجھے قائل کر لیں یہ سب پاکستان کیلئے درست ہیں تو متفق ہو جائوں گا۔ برطانوی میڈیا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارٹی چھوڑ کر جانے والوں کے عہدوں پر نئی تقرریاں کریں گے، فی الحال صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں، دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ حکومت کی ترجیح معیشت نہیں پی ٹی آئی کا خاتمہ ہے۔ خدشہ ہے پارٹی کے نئے عہدیداروں کو حراست میں لے لیا جائے گا، خدشہ ہے یہ مجھے جیل میں ڈال دیں گے۔ میری پوزیشن تب کمزور ہوگی جب ووٹ بینک کھو دوں، جماعت کمزور تب ہوتی ہے جب ووٹ بینک سکڑنے لگتا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری کی وجہ سے بھی ان کی مقبولیت میں کمی آنے کا امکان بظاہر نظر نہیں آتا ہے البتہ پی ٹی آئی پر پابندی، عمران خان کی نااہلی کی صورت میں انتخابات میں پی ٹی آئی کی مقبولیت پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ جیل میں قید عمران خان جن امیدواروں کو نامزد کریں گے، عوام انہیں ہی منتخب کریں گے لیکن بعض مبصرین کی رائے ہے کہ جس طرح پارٹی کے ارکان کو مجبور کر کے مستعفی کرایا گیا ہے، اسی طرح امیدواروں کو بھی امیدواری قبول نہ کرنے اور کاغذات نامزدگی داخل کرنے کی صورت میں دست بردار ہو نے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
سیاسی حکومت اور سیاسی جماعتوں پر مشتمل حکومت عمران خان نے ساتھ مکالمہ کرنا نہیں چاہتی ہے۔ بظاہر ایسی دشمنی جیسے ازلی دشمن ہوں۔ عمران خان کہتے ہیں ’’ حیران ہوں وہ اس سب سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں، ملک کے معاشی اشاریے بدترین صورتحال کا بتا رہے ہیں، بتایا جائے ہمیں دوڑ سے باہر رکھنا ملک کیلئے کیسے فائدہ مند ہوگا‘‘؟۔ وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے ایک نجی ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ’’ عمران خان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی خارج از امکان نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام حربے استعمال کرنے کے بعد عمران خان نے دیکھا کہ وہ بند گلی میں آگئے ہیں۔ اب عمران خان بند گلی سے اسٹیبلشمنٹ کو آوازیں دے رہے ہیں کہ مجھ سے مذاکرات کرلو۔ پچھلے تین چار دن میں جو صلح یا پشیمانی کے چند الفاظ ادا کئے ہیں، ان میں کوئی خلوص یا سچائی نہیں ہے‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button