Column

اندھیری رات کا مسافر ۔۔ یاور عباس

اندھیری رات کا مسافر

یاور عباس
زمانہ قدیم میں جب لوگ پیدل سفر کرتے تھے اور منزل پہ پہنچنے کے لیے سفر کرنا بڑا کٹھن مرحلہ ہوتا تھا، آج کل تو ذرائع آمدروفت اس قدر تیز ہوگئے ہیں کہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچنے کے لیے صرف چند گھنٹے درکار ہوتے ہیں مگر پیدل سفر طے کرنے والے لوگ کئی کئی دن سفر میں گزارتے تھے ، سڑکیں تھیں نہ ہوٹل ، بے آب و گیاہ جنگل، بیابان راستے اور اندھیری راتیں گویا سفر کرنا پورا ایک محاذ تھا۔ منزل پہ پہنچنے کے لیے لوگ دن کی روشنی میں سفر کرتے اور رات کہیں سرائے ڈھونڈتے اور قیام کرتے مگر جو لوگ خوف کی وجہ سے دن کی روشنی میں سفر نہیں کرتے اور اندھیری رات میں سفر پر نکلتے تھے منزل ان کو بھی مل ہی جاتی تھی مگر بڑی تکلیفوں کے بعد، اندھیری راتوں کے مسافر اکثر راستوں میں بھٹک جاتے ہیں اور بہت سارے تو منزل پر پہنچتے ہی نہیں، پاکستان کے75سالہ دور میں عوام کا سفر بھی شاید اندھیری رات کے مسافر جیسا ہی ہے جسے نہ منزل مل رہی اور نہ رستہ، اگر راستہ مل بھی جائے تو اسے رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر کسی جنگل میں دھکیل دیا جاتا ہے، اب تک دو نسلیں تو منزل کی جستجو میں ہی زیر زمین چلی گئیں اور اب تیسری نسل روشنی کی تلاش میں سفر پر گامزن ہے۔
اندھیری رات کے مسافر کی طرح پاکستانی قوم75سالوں سے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ لڑ رہی ہے مگر ہر بار شکست پاکستانی عوام کو ہی ہوتی ہے۔ تحریک پاکستان کے رہنمائوں نے اس نظریہ کے تحت پاکستان کو قائم کرنے کے لیے کامیاب جدوجہد کی، ہم دنیا میں ایک آزاد اور خودمختار زندگی گزارنے کے لیے ایک ایسا خطہ قائم کریں گے جہاں انصاف، اخوت ، مساوات اور رواداری کا عملی نمونہ ملے گا، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح تو برصغیر کے غریب مسلمانوں کو پستیوں سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچانے کے لیے اس قوم کی خوشحالی کا خواب دیکھتے تھے۔ علامہ اقبال نے اسی نظریہ کی تکمیل کے لیے شاعری کے ذریعے اس قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی، لوگوں نے اس نظریہ کی تکمیل کے لیے بے شمار قربانیاں دیں، جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ انگریزوں سے آزادی تو مل گئی مگر جاگیردارانہ، سرمایہ دارانہ نظام سے آزادی نہ مل سکی، محض2فیصد اشرافیہ (چند خاندانوں) نے انگریز کی جگہ لے لی اور اس قوم کو اپنا غلام بنالیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام کے نام پر دہشت گردی پھیلائی گئی اور لوگوں کے لیے زندگی تنگ کردی گئی ، جمہوریت پتہ نہیں کہاں دفن کردی گئی ہے ، کوئی ایسی جمہوری پارٹی نہیں ہے جس نے ماضی میں ہونے والے انتخابات میں سے کسی ایک کو غیر جانبدارانہ ، منصفانہ اور شفاف انتخابات قرار دیا ہو بلکہ ہر دفعہ دھاندلی کے الزامات لگتے رہے، سیاستدانوں کو جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر4کی پیداوار قرار دیا جاتاہے۔ باربار جمہوریت پر شب خون مارا گیا، ڈکٹیٹروں نے جبر کے ذریعے عوام پر سالوں مسلط ہوکر جمہوریت کا نہ صرف گلا گھونٹا بلکہ سیاسی ماحول کو بھی آلودہ کر دیا ، پاکستان میں حقیقی جمہوریت کو پنپنے کا موقع ہی نہیں مل سکا جس کی ذمہ داری سیاستدانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ محض اقتدار کے لالچ میں اصول، نظریہ کو پس پشت ڈال کر پارٹیاں بدل کر چڑھتے سورج کے پجاریوں کی طرح منڈیوں میں اپنی بولیاں لگوائیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے گئے ۔
ہم نے ماضی سے شاید کچھ سبق نہیں سیکھا۔ عوام کو اندھیری رات سے نکالنے کی پاداش میں بہت سے سر پھرے لوگ اپنی گردن تڑوا بیٹھے ہیں۔ اقتدار اور طاقت کے نشے کے لیے ہم نے اپنے ہی ملک کو دولخت کر دیا، اس عظیم سانحہ کے مجرموں کو سزا دینا تو دور کی بات اس پر کمیشن بنا مگر آج تک رپورٹ ملی نہ کسی ذمہ دار کا تعین ہوا۔ وطن عزیز سے جتنے بھی پڑھے لکھے نوجوان ہیں انہوںنے اندھیری رات سے نکلنے کے لیے عافیت جانی کہ بیرون ملک چلے گئے، ملازمت کی اور بہت سارے لوگوںنے اپنے خاندان ہی وہاں شفٹ کر لیے ، بہت سارے سرمایہ دار ایسے ہیں جنہوں نے اپنے ملک سے سرمایہ اٹھایا اور دیگر ملکوں میں کاروبار کرنے لگے اور وہاں شفٹ ہوگئے، لوگ ایسا کیوں نہ کرتے جب ہمارے ملک کے چاروں ستونوں کے ذمہ داران کے بچے باہر تعلیم حاصل کرتے ہیں، باہر کاروبار کرتے ہیں تو پھر عام آدمی کو پاکستان میں رہنے، کاروبار کرنے اور ملازمت کرنے کی ترغیب کون دے گا۔ ایلیٹ کلاس تو اپنا علاج بھی یہاں سے نہیں کراتے کیونکہ آج تک حکومتیں کرنے والوں نے ایسا کوئی ہسپتال بنایا نہیں ہے جہاں سے وہ خود اپنا علاج بھی کرا سکیں۔ ہاں مہنگائی، غربت، جہالت، جمہوریت اور بے روزگاری کے خلاف کرپٹ مافیا کے خلاف آواز اُٹھانے والوں کے علاج کی سہولت ملک میں موجود ہے ۔
جمہوری دور میں حکومت نے جمہوری جدوجہد کو طاقت اور تشدد کے ذریعے کچل ڈالا اور انصاف کی نوبت یہاں تک آگئی کہ عدالت عالیہ کے جج کو پی ٹی آئی رہنمائوں کو کہنا پڑ گیا کہ آپ یہاں لینے کیا آتے ہیں ، پریس کلب جائیں، ایک جملہ بولیں ’’ میں نے پی ٹی آئی چھوڑ دی ہے‘‘ رہائی مل جائے گی ، اس سے زیادہ اندھیری رات کیا ہوگی کہ سیاستدان سیاست چھوڑ رہے ہیں، صحافی صحافت چھوڑ رہے، پڑھے لکھے اور کاروبار ی لوگ ملک چھوڑ رہے ہیں مگر یہاں ظالم ظلم نہیں چھوڑ رہے، کرپٹ لوگ کرپشن نہیں چھوڑ رہے۔ لوگ صرف اس امید پر زندہ ہیں کہ کبھی تو اندھیری رات کا خاتمہ ہوگا اور صبح کا سورج طلوع ہوگا پھر ہم بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہوںگے مگر اس کے لیے انقلاب کی ضرورت ہے۔ جب تک معاشرے میں انصاف، قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی ہم اسی طرح اندھیری رات کی مسافر کی طرح بھٹکتے رہیں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button