ColumnMazhar Ch

جبری مشقت کا خاتمہ کب؟ .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

ویسے تو ہمارے ہاں قریبا ہر فرد ہی کسی نہ کسی قسم کے سماجی، مذہبی، معاشی اور سیاسی جبر کا شکار ہے لیکن جبر کی دیگر اقسام کے مقابلے میں معاشی جبر اس وجہ سے زیادہ اہمیت کا حامل قرار پاتا ہے کہ معاشی جبر کے شکار افراد کو نہ صرف دیگر تمام اقسام کے جبر کا زیادہ سامنا کرا پڑتا ہے بل کہ ان کا سماجی ، معاشی اور سیاسی استحصال بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 65لاکھ سے زائد افراد جبری مشقت یا جبری غلامی کا شکار ہیں جن میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے حکمران طبقہ اور سیاسی جماعتیں اقتدار کی رسہ کشی میں اتنی زیادہ مصروف ہیں کہ محنت کشوں خاص طور پر جبری مشقت کا شکار افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوئی قابل ذکر کوشش نظر نہیں آئی۔ گزشتہ دنوں بانڈڈ لیبر لیبریشن فرنٹ پاکستان کی اشتراک سے ایف ای ایس ( فریڈرک ایبرٹ فائونڈیشن) پاکستان نے ملک میں بانڈڈ لیبر کی تازہ ترین صورت حال پر لیبر کانفرنس کا انعقاد کرایا جس میں لیبر تنظیموں، سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ اور میڈیا نمائندوں کے علاوہ جبری مشقت پر مجبور افراد کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس میں سابق وزیرتعلیم رانا مشہود سمیت کئی ایک مقررین نے جبری مشقت کی موجودہ صورت حال بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے خاتمے کے لیے تجاویز بھی پیش کیں۔ بانڈڈ لیبر لیبریشن فرنٹ کی جنرل سیکرٹری سیدہ غلام فاطمہ نے کانفرنس کے آغاز میں سیاسی جماعتوں اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے بھٹہ مالکان اور جاگیر داروں کو ٹکٹس نہ دینے کا اعلان کریں جو کسی نہ کسی طرح محنت کشوں کی جبری مشقت میں ملوث ہوں۔ تقریب کے مہمان خصوصی رانا مشہود نے سیدہ غلام فاطمہ سے اتفاق کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ اپنی جماعت کے منشور میں اس نکتی کو شامل کرائیں گے۔ رانا مشہود کا کہنا تھا کہ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف نے سابق وزیر اعلی پنجاب کے طور پر بھٹہ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے کئی ایک عملی اقدامات کیے لیکن بدقسمتی سے ان کے بعد آنے والی تحریک انصاف حکومت نے ان اقدامات پر عمل درآمد جاری رکھنے کو ترجیح نہ دی جس کے نتیجے میں بھٹہ مزدوروں کے مسائل میں مزید ابتری دیکھنے میں آئی۔
رانا مشہود کا کہنا کافی حد تک بجا ہے کیوں کہ سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی قیادت میں چلنے والی پنجاب حکومت نے جنوری2016ء میں چائلڈ لیبر آرڈیننس پاس کیا تھا جس کے نتیجے میں اینٹوں کے بھٹوں پر بچوں کی جبری مشقت کے خاتمے کے علاوہ بچوں کو سو فیصد مفت تعلیم دینے کے اقدامات اٹھائے گئے۔ بچوں کو کتابیں ، یونیفارم اور اسٹیشنری کا سامان مفت فراہم کرنے کے علاوہ ماہانہ 1000روپے وظیفہ بھی ملنا شروع ہو گیا تھا جب کہ بچوں کو اسکول داخل کرانے والے والدین کو 2000روپے سالانہ وظیفہ بھی دیا جانے لگا تھا ۔ اس قانون کی رو سے اینٹوں کے بھٹوں پر بچوں سے جبری مشقت کروانے والے بھٹہ مالکان کو جرم ثابت ہونے پر 6ماہ قید اور 5لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی رکھی گئی تھی۔ شروع شروع میں اس قانون پر سختی سے عمل درآمد بھی ہوا اور اس منصوبہ کے تحت سابقہ ( ن) لیگی دور حکومت میں96ہزار بچوں کو صوبہ پنجاب کے رسمی اور غیر رسمی سکولوں میں داخل کیا گیا تھا لیکن سابقہ تحریک انصاف حکومت نے بھٹہ مزدوروں کے بچوں کو دئیے جانے والے فنڈز بند کر دئیے جس کے نتیجے میں نہ بھٹہ مزدور بچے دوبارہ سے جبری مشقت پر مجبور ہوئے ۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں 23ہزار کے قریب اینٹوں کے بھٹے ہیں جن میں سے 10ہزار سے زائد صرف پنجاب میں واقع ہیں۔ ان بھٹوں پر سالانہ 45ارب سے زائد اینٹیں تیار ہو رہی ہیں جبکہ جنوبی ایشیا میں بھٹوں پر اینتیں بنانے والے ممالک کے حوالے سے پاکستان کا شمار تیسرے بڑے ملک میں ہوتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کی مجموعی تعداد 45لاکھ سے زائد ہے جن میں سے بیشتر مزدور جبری مشقت پر مجبور غلاموں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ یوں تو بھٹہ مزدوروں کو پینے کے صاف پانی، صحت اور رہائش سمیت متعدد مسائل کا سامنا ہے لیکن پیشگی رقم کے قانونی تحفظ اور کم سے کم اجرت کے حصول میں رکاوٹ جیسے اہم مسائل کی وجہ سے بھٹہ مزدوروں کی اکثریت جدید دور میں بھی جبری مشقت کا شکار ہے۔
2021میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بھٹوں پر بچوں سے مزدوری کرانے سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران پیشگی قرض دینے کو غیر قانونی عمل قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ بھٹہ مزدور پیشگی رقم واپس کرنے کے پابند نہیں۔ عدالت نے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت بھی کی تھی کہ وہ آگاہی مہم کے ذریعے لوگوں خاص طور پر بھٹہ مزدوروں اور بھٹہ مالکان تک یہ بات پہنچائیں کہ مزدور اپنی مرضی کے بغیر بھٹہ پر کام کرنے کے پابند نہیں ہیں اور وہ اپنی مرضی سے نوکری بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ کچھ لوگ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ پیشگی جیسی لعنت کی ذمہ داری بھٹہ مزدوروں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ پیشگی کی مد میں ہزاروں لاکھوں کی رقم لیے بغیر کام ہی نہیں شروع کرتے۔ ایک لحاظ سے ان کا اعتراض درست بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مزدوروں کو پیشگی کے چنگل میں بھٹہ مالکان نے ہی پھنسایا ہے۔ بھٹہ مالکان کے ظلم و استحصال سے تنگ آ کر جب مزدور کسی دوسرے بھٹے میں کام شروع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پہلا بھٹہ مالک دوسرے بھٹہ مالک کو مزدوروں کے سر پر پیشگی کی شکل میں واجب الادا رقم کا مطالبہ کرتا ہے اور دوسرا بھٹہ مالک یہ رقم ادا کر کے مزدوروں کے سر پر پیشگی کی شکل میں پھر سے لاکھوں روپے کا قرض لاد دیتا ہے۔ اس طرح سے بھٹہ مزدور ایک مالک سے دوسرے مالک کے ہاتھ فروخت کر دئیے جاتے ہیں۔ یہ چیز انسانی اسمگلنگ کے زمرے میں آتی ہے اور یہ جدید غلامی کی بدترین شکلوں میں سے ایک ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں پر مزدوروں کو حکومت کی طرف سے مقرر کی جانے والی کم سے کم اجرت نہ ملنا بھٹہ مزدوروں کے سرفہرست مسائل میں سے ایک ہے۔ اینٹوں کے ایک بھٹے پر روزانہ بنیاد پر ہزاروں جبکہ ماہانہ بنیاد پر لاکھوں روپے کم اجرت دی جا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے فی ہزار اینٹ کی کم سے کم اجرت1800مقرر کی گئی ہے لیکن بھٹہ مالکان مزدوروں کو ایک ہزار اینٹ بنانے کی اجرت 1000روپے بھی نہیں دیتے۔ سندھ اور بلوچستان کے بہت سے بھٹوں پر مزدوروں کو دی جانے والی یومیہ اجرت 800سے بھی کم ہے۔ اسی طرح اینٹوں کی فی ہزار بھرائی اور نکاسی کے حکومتی ریٹ اور بھٹہ مزدوروں کو ملنے والی حقیقی اجرت میں بہت فرق ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق بھرائی اور نکاسی کی مد میں دی جانے والی اجرت اصل اجرت سے50سے60 فیصد کم ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button