Column

عمران خان اپنی سوچ بدلیں .. روہیل اکبر

روہیل اکبر

ناقص پالیسیوں کے باعث ملک میں سیاسی ماحول تو گندا ہو ہی چکا ہے، ساتھ میں تجارت اور صنعت کو بھی شدید دھچکا لگا ہے، اس پر بین الاقوامی طور پر ہمارا کیا تشخص ہے اور گرفتاریوں کے بعد سیاسی رہنمائوں کا کیا رد عمل سامنے آرہا ہے، اس پر کچھ لکھنے سے پہلے کچھ معاشی صورتحال پر بات کر لیتے ہیں کہ ہمارے کاروباری طبقے نے موجودہ ملکی معاشی صورتحال کو تجارت اور سرمایہ کاری کیلئے خطرناک قرار دے دیا ہے، موجودہ ملکی معاشی حالات میں بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے عوام کے ساتھ ساتھ تاجر برادری بھی سخت پریشان ہے۔ نامساعد حالات کی وجہ سے روزمرہ اخراجات پورے کرنا مشکل ہو چکے ہیں اور اس مہنگائی کے ذمہ دار ہمارے حکمران ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی تقریبا80فیصد آبادی ذہنی و نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو چکی ہے۔ آٹا، چینی، گھی، پٹرول، ادویات نے انتہائی بڑھتے ہوئے ریٹس سے عوام اور خصوصا چھوٹے دکاندار نقصان اٹھا رہے ہیں۔ عوام کیلئے دو وقت کی روٹی مشکل ہو کر رہ گئی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام کو خودکشیوں پر مجبور کر دیا ہے۔ جرائم میں روز بروز اضافہ ہو رہاہے، ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے، سرکاری ملازمین کی تنخواہ کم ہے، ریٹائرڈ ملازمین پنشن کی ادائیگی کیلئے ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ سیاسی حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں اور ملک میں شدید مہنگائی کا طوفان ہے۔ عوام دونوں طرف سے پس رہے ہیں، حکومتی اداروں کی طرف سے سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ بھی رک نہیں رہا، بلکہ خاطر تواضع کے بعد صرف کارکن ہی نہیں، بڑے لیڈر حضرات بھی نہ صرف اپنا بیانیہ بدل رہے ہیں بلکہ پارٹی بھی چھوڑ رہے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان جس نے پنجاب میں پورا راج کیا، صرف دو دن کی گرفتاری سے اپنا بیانیہ بدل لیا۔ اس سے پہلے جو گرفتاریاں ہوئیں، اس پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ایکوئڈیم، سی آئی آئی سی یو ایس اور فورم ایشیا نے مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا، جس میں انہوں نے بڑے پیمانے پر پی ٹی آئی رہنمائوں اور کارکنان کی گرفتاریوں اور دہشت گردی کے مقدمات کے ذریعے ہراساں کرنے اور صحافی عمران ریاض کی بازیابی سمیت پرامن احتجاج میں شامل تمام افراد کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ پنجاب حکومت نے سی سی ٹی وی فوٹیج، جیو فینسنگ، اور واٹس ایپ نگرانی کی مدد سے 25ہزار لوگوں کی فہرست مرتب کی ہے جبکہ 5ہزار افراد کو حملوں میں براہ راست ملوث ہونے پر گرفتار کیا جائے گا، جن پر سرکاری اور فوجی املاک پر حملہ کرنے والوں پر فوجی عدالتوں اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمے چلائے جائیں گے اور ابھی تک کم از کم 4ہزار افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ 21مئی کو لاہور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے 123سیاسی کارکنوں کی رہائی کا حکم دیا۔ سیاسی مقاصد کیلئے فوجداری قوانین اور مبہم انسداد دہشت گردی کی دفعات کا سہارا نہ لیا جائے اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کا خیال رکھا جائے، اکثر پارٹی رہنمائوں کو جیل سے رہائی کے فورا بعد عدالت کے احاطے سے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، جن لوگوں نے احتجاج میں حصہ لیا ان کے گھروں پر آدھی رات کو چھاپے مارے گئے اور بغیر وارنٹ گرفتار کر لیا گیا۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ معروف صحافی عمران ریاض خان پی ٹی آئی کی حمایت کے لیے جانے جاتے تھے۔ 11مئی کو سیالکوٹ کے ایئر پورٹ سے عمران ریاض کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد سے ان کی کوئی خبر نہیں۔ عدالتی احکامات کے باوجود پولیس عمران ریاض کو عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہی۔ 22مئی کو پولیس نے لاہور ہائیکورٹ کو بتایا کہ عمران ریاض کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ یہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت جبری گمشدگی ہے۔ پاکستان میں کئی سال سے اختلاف کرنے والی آوازوں کو سزا دینا تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے، اس کو ختم ہونا چاہیے۔ سابق وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کو 17مئی کو گرفتار کیا گیا تھا، 22مئی کو لاہور ہائیکورٹ نے شیریں مزاری کی فوری رہائی کا حکم دیا۔ ہائیکورٹ کے حکم پر رہائی کے بعد شیریں مزاری کو نئے مقدمات میں نامزد کر کے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا، ہر گرفتار شدہ شخص مقامی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ضمانت یافتہ تحفظات کا حقدار ہے، گرفتار افراد کو قانون بشمول جج یا اہلکار کے سامنے اپنے کیس کی فوری سماعت کرنے کا حق دیا جائے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے پرامن احتجاج کے آئینی حق کو تسلیم کرے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کے ریاستی فریق کے طور پر پرامن احتجاج کے خلاف جاری کریک ڈائون ان معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ پی ڈی ایم کی ضد اور ہٹ دھرمی سے سکیورٹی ادارے بھی سیاست کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ افواج پاکستان دنیا بھر کی طاقتور افواج میں سے ایک ہے، ہر محب وطن شہری کی یہ سوچ ہے کہ آج اگر پاکستان قائم و دائم ہے تو وہ پاک فوج کی بدولت ہے۔ آج بھی پوری قوم سمیت ملکی اداروں کے ملازمین افواج پاکستان کیساتھ ہر محاذ پر ساتھ کھڑے ہیں۔ افواج پاکستان کی ملکی خدمات پر انہیں خراج تحسین اور شہدا افواج پاکستان کی قربانیوں پر انہیں سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔ آخر میں حقیقت پر مبنی کچھ باتیں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی شیریں مزاری نے سیاست سے کنارہ کشی، فیاض الحسن چوہان اور جلیل شرقپوری نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا ۔ فیاض الحسن چوہان کا کہنا تھا کہ فوج سے محبت میرے خاندان کے اندر رچی بسی ہوئی ہے، سیاست میں انتہا پسندی نہیں لانی چاہیے، ریاست سے ٹکرانا سیاست دانوں کا کام نہیں ہوتا۔ پچھلے سال مئی کے آخر میں عمران خان کو ایک میسج کیا تھا، عمران خان کو درد دل سے بات سمجھائی تھی تشدد، ریاست، اداروں سے ٹکرا کی پالیسی کو چھوڑ دیں، عمران خان کو کہا پی ڈی ایم لوٹ مار ایسوسی ایشن کو ہدف تنقید بنائیں، بیگم صفدر کے کہنے پر میرے اور بہنوں کے گھر تباہ کر دیئے گئے۔ خان صاحب نے میری گرفتاری پر کوئی ٹویٹ نہیں کیا۔ خان صاحب کو شیریں مزاری بھی نظر نہ آئی، مسرت جمشید چیمہ، فواد چودھری، عالیہ حمزہ میرے حوالے سے کڑ کڑ کرتے رہتے تھے۔ نو مئی کے واقعات نہیں ہونے چاہیے تھے، پاکستان کا دفاع مضبوط فوج سے ہی ممکن ہے۔ ان باتوں کے بعد عمران خان کو اپنی متکبرانہ سوچ سے باہر نکلنا چاہیے اور اپنی سوچ کو بدلیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button