Column

میئر کراچی ، حافظ نعیم الرحمان بمقابلہ جیالا

یاور عباس

خدا خدا کر کے ایک سال کے بعد کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے مراحل تکمیل کو پہنچنے ہی والے ہیں ۔ مرحلہ وار بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں دھونس ، دھاندلی کے الزامات کے باوجود جماعت اسلامی ، پیپلز پارٹی ، پی ٹی آئی بڑی جماعتیں بن کر ابھریں ہیں۔ جبکہ کراچی کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت ہونے کی دعویدار ایم کیو ایم نے حلقہ بندیوں اور مردم شماری کے عمل پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن سے بائیکاٹ کر دیا تھا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس پارٹی نے بھی کسی الیکشن کا بائیکاٹ کیا ہے وہ بعد میں پچھتائے ہیں ۔ بہت سارے تجزیہ نگاروں کا دعویٰ تھا کہ ایم کیو ایم نے عمران خاں کا ساتھ چھوڑ کر پی ڈی ایم کے ساتھ الحاق کرنے کی وجہ سے عوامی سطح پر شکست کے خوف سے الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا مگر حالات جتنے بھی خراب ہوتے اگر ایم کیو ایم الیکشن میں حصہ لیتی تو اس کو بہت بڑا حصہ مل جانا تھا اور یوں وہ کراچی کے عوام کی خدمت کے لیے بلدیاتی سطح پر دستیاب وسائل سے اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کر سکتے تھے مگر انہوںنے یہ موقع خود گنوا دیا ، جنرل الیکشن کی تیاری کے سلسلہ میں اگرچہ ایم کیو ایم نے بکھرے ہوئے دھڑوں کو یکجا کر لیا ہے مگر وقت بتائے گا کہ ایم کیو ایم جنرل الیکشن میں کراچی سے کتنی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے ۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلہ میں مئیر کراچی کا انتخاب ہوگا ، جس پر نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان کی نظریں لگی ہوئیں ہیں ۔ ماضی میں کراچی کی میئر شپ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے پاس رہ چکی ہے ۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی ممبران کی تعداد 193ہوگئی۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن ، جمعیت علمائے اسلام کے اتحاد کی تعداد 173ہوگئی مئیر کے انتخاب کے لیے 184ارکان کی حمایت درکار ہے۔ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے مئیر کے لیے حافظ نعیم الرحمان کو نامزد کر دیا ہے جبکہ ڈپٹی مئیر پی ٹی آئی سے نامزد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی کے دو دھڑے بن گئے ایک دھڑے کے امیدوار مرتضیٰ وہاب اور دوسرے دھڑے کے امیدوار نجمی عالم یا مسرور احسن ہونگے۔ جمہوری اور پارلیمانی روایات کے مطابق جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن نے واضح اکثریتی ممبران کی حمایت حاصل کر لی ہے اور جمہوری تقاضوں کے مطابق اب ان کے مئیر کراچی بننے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں رہی ۔ پیپلز پارٹی کے وزراء نے بھی حافظ نعیم الرحمان کی اکثریت کو تسلیم کرلیا ہے مگر پھر بھی اعلان کیا جارہا ہے کہ مئیر کراچی جیالا ہی ہوگا اور پیپلز پارٹی دعویٰ کر رہی ہے کہ ہمیں صرف 9مزید ارکان کی حمایت درکار ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کو سب سے بڑا خطرہ سانحہ 9مئی کی صورتحال کے بعد پی ٹی آئی کے ممبران پر ریاستی دبائو ہے ، جس طرح کبھی ماضی میں سنتے رہے ہیں کہ ’’ لاڑکانہ چلو ، ورنہ تھانے چلو ‘‘ اسی طرح اب بھی جلائو گھیرائو کی آڑ میں پیپلز پارٹی مقدمات کا سہارا لے کر وفاداریاں تبدیل کرنی کی کوشش کر رہی ہے۔ سندھ کے صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ نے اعلان بھی کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام ممبران کو حلف اُٹھانے اور میئر کراچی کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں کریںگے ۔ اتنی یقین دہانی کے باوجود حافظ نعیم الرحمن کے خدشات اور پیپلز پارٹی کے یقین نے عوام کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے ۔
دونوں امیدواروں اور ان کی پارٹیوں کا جائزہ لیا جائے تو پیپلز پارٹی عرصہ 15سال سے مسلسل سندھ میں حکومت کرنے کے باوجود عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے ، اندرون سندھ کو چھوڑ دیں ، کراچی شہر میں صحت و صفائی ، ٹرانسپورٹ، پینے کے صاف پانی جیسے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں تاحال ناکام رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی تاحال اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کر رہی ۔ جبکہ مدمقابل حافظ نعیم الرحمن کراچی کی سیاست میں ایک طاقتور شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں ، نیشنل میڈیا میں انہیں ایک وزیر کے برابر کوریج مل رہی ہے ۔ حافظ نعیم الرحمن نے حلف انگریزی کی بجائے اردو میں اُٹھانے پر بھی مقبولیت حاصل کی ہے ۔ ان کا دامن ابھی تک کرپشن سے پاک ہے۔ ان کا انداز گفتگو بڑا سنجیدہ ہے ۔ پیپلز پارٹی جب تک اپنا امیدوار نامزد نہیں کرتی تب تک ان کے مدمقابل شخصیت کا تقابلی جائزہ نہیں لیا جاسکتا ۔ پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ جو امیدوار بھی میدان میں اتارے ان کی تعلیم ، سیاسی تربیت ، کرپشن سے نفرت بدرجہ اتم موجود ہونی چاہیے ۔
حافظ نعیم الرحمن اکثریت ہونے کے باوجود میئر شپ کے الیکشن میں کامیاب کے لیے پرامید نظر نہیں آتے ، بلکہ جماعت اسلامی کے کچھ دوستوں سے بارے بات چیت کی تو انہوںنے پہلے سے ہی بتا دیا کہ ہمیں بھی پتہ ہے کہ میئر جیالا ہی ہوگا کیونکہ یہاں جمہوری سسٹم ناکارہ ہوچکا ہے ، ریاستی جبر اور طاقت کے ذریعے رائے تبدیل کرانا اب کوئی مشکل کام نہیں ہے ، پاکستان کے موجودہ حالات میں جس طرح پی ٹی آئی کی ساری قیادت رات کو جیل میں تو صبح پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کر کے مقدمات سے نجات حاصل کر رہے ہیں اس عمل اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ میئر کراچی جیالا ہی ہوگا ۔ نامور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے مطابق پاکستان میں ہونے والے ہر الیکشن میں نتائج کچھ بھی ہوں اقتدار مقبولیت کی بناء پر نہیں بلکہ قبولیت کی بناء پر ملتا ہے ۔ چونکہ مقتدر حلقوں میں اس وقت پی ٹی آئی کی قبولیت پر سوالیہ نشان ہے ، اس لیے ان کے اتحادی ہونے کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے مئیر کراچی کے عہدہ سے ہاتھ دھونا پڑ جائے ، کراچی کی سیاست میں عمران خاں نے مئیر کے جماعت اسلامی سے اتحاد کر کے بہترین سیاسی فیصلہ کیا ہے اس سے پی ڈی ایم مخالف دھڑا مضبوط ہوا۔ فیصلے سے عوامی حمایت میں اضافہ ہوسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اکثریت ہونے کے باوجود کراچی کا اقتدار نہ ملنے کے خطرہ کے پیش نظر حافظ نعیم الرحمن بھی مقتدر حلقوں کے خلاف عمران خاں کی بولی بولتے دکھائی دیتے ہیں ۔ مئیر کراچی کے انتخابات جب بھی ہوں اگر اکثریت کو اقلیت میں بدل کر جیالے امیدوار کے سر پر کراچی کا تاج سج گیا تو پھر اس جمہوری سسٹم سے عوام کو مایوسی ہوگی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button