ColumnKashif Bashir Khan

پھر انہیں لانے کا منصوبہ؟؟؟ ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

امریکہ کی کانگریس کے60سے زائد ارکان نے اپنے وزیر خارجہ کو ایک یادداشت پیش کی ہے جس میں پاکستان میں جاری پولیس گردی اور گرفتاریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے درخواست کی ہے کہ پاکستان کی حکومت سے انسانی حقوق کی شدید پامالیوں اور بالخصوص خواتین سے غیر انسانی و غیر اخلاقی ریاستی جبر پر بات کی جائے۔ اسی طرح کینیڈا کے ارکان پارلیمنٹ نے بھی پاکستان میں جاری ریاستی جبر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں فوری روکنے کی اپیل کی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ ایک سال سے جو بھی کچھ رجیم چینج کی بدولت برسر اقتدار آنے والی حکومت جنہیں عوام نے ہرگز مینڈیٹ نہیں دیا تھا نے عوام اور اپوزیشن کے ساتھ کیا ہے اس کی مثال ماضی میں کسی آمر کی حکومت میں بھی نہیں ملتی۔ جب گزشتہ اپریل میں جس شخص پر فرد جرم عائد ہونی تھی اسے وزیراعظم پاکستان بنایا گیا تو عمران خان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاکستان کی معیشت اور آئین پاکستان کے ساتھ اتنا بڑا کھلواڑ ہو گا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اگر عمران خان قومی اسمبلی سے استعفیٰ نہ دیتا اور بعد میں دونوں صوبائی اسمبلیوں کو نہ توڑتا تو عوام اور تحریک انصاف کے کارکنوں پر آج بدترین جبر اور آئین سے کھلواڑ نہ ہو رہا ہوتا لیکن اگر گزشتہ سال پر نظر دوڑائیں تو جس طرح سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اور تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کی خرید و فروخت کی گئی تو میرا بطور صحافی یہ خیال ہے کہ اگر قومی اسمبلی سے استعفیٰ نہ دیئی جاتے تو پھر جو کچھ آج تحریک انصاف کے رہنمائوں سے کرایا جا رہا ہے یہ بہت پہلے ہو چکا ہوتا اور پنجاب میں بھی جس طرح سے صوبائی ضمنی انتخابات کے بعد حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنوایا گیا تھا اور سپریم کورٹ کے تاریخ ساز فیصلے کے بعد جس طرح مسلسل تحریک انصاف کے حمایت یافتہ وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی حکومت کے خلاف مختلف طریقوں سے یلغار کی گئی تو ان کا صوبائی اسمبلیوں کا توڑنا اور پہلے قومی اسمبلی سے اپنے ارکان کے استعفیٰ دلانا ایک اچھی سیاسی چال تھی لیکن جس طرح سے استعفوں کو پہلے لٹکایا گیا اور جب مفاہمت کی بات ہو رہی تھی تو قومی اسمبلی کے سپیکر نے چیف الیکشن کمشنر سے ساز باز کر کے جیسے عجلت میں منظور کئے وہ کسی کے بھی اس گمان کو غلط ثابت کرتا ہے کہ عمران خان کا قومی اسمبلی سے نکلنا غلط تھا۔ اس کے بعد دونوں صوبائی اسمبلیوں کو توڑنا کسی طور بھی غیر آئینی نہیں تھا بلکہ اس کی خواہش تو حکومت کے تمام وزراء و رہنما ہر روز تھوک کے حساب سے عمران خان سے کرتے تھے کہ اگر عام انتخابات کرانا چاہتے ہیں تو دونوں صوبائی اسمبلیاں توڑیں، ہم عام انتخابات کرا دیں گے لیکن جب اسمبلیاں توڑی گئیں تو پھر سپریم کورٹ کے بار بار کے احکامات اور صدر پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان کی صوبائی انتخابات کی تاریخیں دینے کے بعد جس طرح ان کے احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھ کر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نگران حکومتوں سے عوام پر ظلم کرایا گیا وہ بھی ایک سیاہ باب ہے۔ آج گلگت بلتستان کی منتخب حکومت کا وزیر اعلیٰ اسلام آباد میں نظر بند ہے جبکہ آزاد کشمیر میں وزیر اعلیٰ کی توہین عدالت میں سزا کے باعث جوڑ توڑ کر کے عوام کے مینڈیٹ کے برعکس ایک ایسے شخص کو پیپلز پارٹی کے ساتھ گٹھ جوڑ کے بعد وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا جو ڈیفیکشن کے تحت نا اہل ہونا چاہئے تھا۔ خیر اس وقت ملکی صورتحال یہ ہے کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس کر بد حال ہو چکے ہیں اور ملکی معیشت تباہ حال ہو چکی۔ پاکستان کو آئی ایم ایف سے جو قرضہ ملنے کی امید تھی وہ معاملہ بھی مہینوں سے لٹکا ہونے کے باعث اب تک حل نہیں ہو سکا بلکہ سننے میں آیا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے نے سعودی عرب اور دوسرے ممالک سے نہ صرف گارنٹی مانگی ہوئی ہے بلکہ اب اس نے مطالبہ کر دیا ہے کہ ماضی میں کئے گئے قرض کے چار ارب ڈالر جون میں واپس کرنے کا انتظام کیا جائے پھر ایک ارب ڈالر سے تھوڑا سا زیادہ قرضہ جاری کرنے پر غور کیا جائے گا۔ اب سوچیں کہ ایک ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر کا حامل پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ موجودہ حکومت کو ایک ارب ڈالر دینے سے اس لئے بھی ہچکچا رہا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر یہ رقم موجودہ حکومت کو دے دی گئی تو وہ اسے انتخابات میں جیتنے کے لئے استعمال کر لیں گے۔ جس طرح عمران خان کو گرفتار کیا گیا وہ افسوسناک تھا اور اس پر جو عوامی ردعمل آیا وہ شدید تھا لیکن لاہور میں کور کمانڈر کے گھر پر حملہ گو کہ افسوسناک تھا لیکن اس تناظر میں تحریک انصاف کے کارکنوں اور رہنمائوں پر غیر انسانی کریک ڈائون اور گرفتاریوں پر دنیا بھر کی حکومتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں چیخ اٹھی ہیں۔ آج جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے اس میں سرفہرست پنجاب کی وہ نگران حکومت ہے جو الیکشن کمشنر اور وفاقی حکومت نے ایک گھنائونے منصوبے کے تحت آئین پاکستان کو پامال کرنے اور انتخابات نہ کروانے کے لئے بنوائی تھی۔ آئین پاکستان تو مسلسل پامال ہو چکا اور وزیراعظم اور وزراء انتخابات نہ کرانے کے مسلسل اعلانات کے بعد اپنے مشن میں کامیاب ہو چکے ہیں جبکہ عوام کی اکثریت آج بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روگردانی اور ججوں کی توہین پر توہین کے مرتکب صوبائی حکومت، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وفاقی حکومت پر توہین عدالت لگنے کی منتظر ہیں۔ آج پاکستان میں جو ریاستی جبر اور پولیس گردی ہو رہی ہے اس کے پیچھے صرف اور صرف دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نہ کرانا ہے۔ عمران خان کی غیر معمولی مقبولیت کے پیش نظر جو تھوڑ پھوڑ اس وقت تحریک انصاف میں کی جا رہی ہے وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نئی نہیں ہے اور اسے سیاسی انجینئرنگ کہا جاتا ہے، آج تمام چینلز عمران کے مخالف بیانیے کو چلا رہے ہیں لیکن سوچنے کی بات ہے کہ جو رہنما مختلف چینلز پر آ کر تحریک انصاف سے ’’ وطن کی محبت‘‘ میں علیحدہ ہونے کا اعلان کر رہے ہیں، ان کی سیاسی حیثیت کیا ہے اور وہ نو مئی سے آج تک کہاں سوئے ہوئے تھے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ معاشی تباہ حالی کا شکار پاکستان کیا ایسے ریاستی جبر کا متحمل ہو سکتا ہے اور اس طرح کے اقدامات سے ایک مقبول عام سیاسی رہنما کے خلاف عوام کے دلوں میں نفرت بٹھائی جا سکتی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو اس خدشے کے تحت میں نے آج اپنے قارئین سے پوچھا ہے کہ ماضی میں ملک کو لوٹ کر تباہ و برباد کرنے والے آج بھی برسر اقتدار ہیں اور ملکی ادارے ان کی لوٹ مار کو جائز قرار دے چکے ہیں، نیب کا ادارہ سابق وزیر اعظم کو سیرت النبیؐ پر بننے والی یونیورسٹی کا ٹرسٹی بننے پر بار بار تنگ کر رہا ہے جبکہ وہی نیب شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں کو ساتھیوں سمیت مختلف مقدمات میں بری کرتا نظر آرہا ہے۔ سوچئے، منصوبہ بندی ہو رہی ہے کہ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ مار کر پھر انہی لوگوں کو اقتدار میں برقرار رکھا جائے جن کے لئے عوام کی حیثیت غلاموں سے بڑھ کر نہیں ہے۔ سوچئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button