ColumnImtiaz Aasi

قانون کی دیوی .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

یہ جولائی 2001ء کی با ت ہے مجھے قتل کے مقدمہ میں ملوث کیا گیا تو میں معروف قانون دان اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے والد سردار محمد اسحاق خان کے دفتر چلا گیا۔ میرے پہنچنے کے بعد ان کے چھوٹے بھائی سردار طارق مسعود خان بھی پہنچ گئے، جو آج کل سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ سردار صاحب کا تعلق میرے آبائی علاقہ کلر سیداں سے تھا۔ وہ نہ صرف مجھے بلکہ ہر آنے والے کو دل و جان سے خوش آمدید کہتے تھے۔ میری روداد سن کر کہنے لگے تم نے بھاگنا نہیں بلکہ آج ہی تھانہ میں پیش ہو جانا ہے۔ ان کی یہ بات سن کر میں حیران رہ گیا نہ ضمانت نہ کوئی اور بات۔ حالانکہ وہ چاہتے تو میری ضمانت قبل از گرفتاری آسانی سے کرا سکتے تھے۔ جناب سردار اسحاق خان کے یہ الفاظ مجھے آج شدت سے یاد آ رہے ہیں۔ کسی کے خلاف کوئی مقدمہ بن جائے یا بہت سے مقدمات درج ہو جائیں تو بہتری اسی میں ہے انسان خود کو قانون کے حوالے کر دے، جس سے نہ صرف وہ نئے مقدمات سے محفوظ رہتا ہے، بلکہ اس کی جان کو بھی کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال میں مجھے تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف مقدمات کی بھرمار سے یاد آیا وہ ابتداء میں اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دیتے تو شائد ان کے خلاف اتنی تعداد میں نہ مقدمات بنتے اور نہ حالات اتنے خراب ہوتے۔ سانحہ نو مئی کے پس پردہ محرکات بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا، اس سانحہ کی تحقیقات کے بعد حالات کی ذمہ داری اور اصل ملزمان کی نشاندہی ہو سکے گی البتہ اس روز جو کچھ ہوا اس سے ملک و قوم کی جگ ہنسائی ضرور ہوئی ہے۔ پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے، جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں اس سانحہ کی انکوائری بہت جلد مکمل ہو جائے گی۔ خبروںکے مطابق سانحہ میں ملوث لوگوں کو فوج کے حوالے کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان کو عوام سے جو پذیرائی ملی وہ بھی سیاسی تاریخ کا اہم باب تھا۔ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی کامیابی نے پنجاب کو اپنا قلعہ سمجھنے والوں کے لئے عمران خان اور ان کی جماعت بہت بڑا چیلنج بن گئی۔ عمران خان نے اپنے بعض ناعاقبت اندیش ساتھیوں کے کہنے پر دھیرے دھیرے چلنے کی بجائے زیادہ سبک رفتاری کا مظاہر ہ کیا جس سے فریق ثانی میں اضطراب کا پیدا ہونا قدرتی امر تھا۔ عمران خان وزارت عظمیٰ سے محرومی کو زندگی موت کا مسئلہ نہ بناتے تو شائد انہیں یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ اس حقیقت میں دو آراء نہیں عمران خان نے آج کی نوجوان نسل کو بہت تھوڑے وقت میں اپنا گرویدہ بنا لیا۔ زمان پارک میں کے پی کے اور پنجاب کے نوجوانوں کا اکٹھ دیکھتے ہی دیکھتے ملکی اداروں کے لئے چیلنج بن گیا۔ اس وقت کئی ہزار لوگ سانحہ نو مئی میں گرفتار ہیں۔ جیل حکام نے جیل مینوئل کو پس پشت ڈالتے ہوئے گرفتار لوگوں کو ان کے اضلاع کی دوسری جیلوں میں بھیج دیا تھا جو گرفتار شدگان کے لواحقین کے لئے مزید مشکلات کا باعث بن گیا ہے۔ بہت سے لواحقین کو اپنے بچوں بارے کچھ علم نہیں وہ کہاں اور کس جیل میں ہیں۔ سیاست میں کامیابی کی شرط اپنے پتے چھپا کر رکھنا ہوتا ہے سابق وزیراعظم نے اپنے پتوں کو قبل از وقت آشکار کرکے اپنے اور اپنی جماعت کے لئے مشکلات پیدا کر لی ہیں۔ گو عمران خان اپنے بیانات میں کئی بار اس بات کی یقین دہانی کرا چکے تھے اداروں سے ان کا کوئی ٹکرائو نہیں ہے لیکن سانحہ نو نے مئی عمران خان کی ان تما دلیلوں کی نفی کرکے پی ٹی آئی کو گہری کھائی میں ڈال کر اقتدار سے کوسوں دور کر دیا ہے۔ دراصل عمران خان کو بندوں کی پہچان نہیں ان کے بعض قریبی رفقاء ان کے دشمن بن چکے ہیں۔ سانحہ نو مئی کے واقعات کو حکومت عمران خان کے خلاف بطور سیاسی ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ پی ڈی ایم عمران خان کے خلاف کوئی قابل تسلیم بیانیہ بنانے میں ناکام نظر آرہی تھی لیکن سانحہ نو مئی کے بعد عمران خان نے اپنے خلاف انہیں ایک مضبوط جواز فراہم کر دیا ہے۔ حکومت عمران خان اور ان کی جماعت کے خلاف سیاسی اور انتظامی طور پر کچھ زیادہ ہی متحرک ہو چکی ہے۔ جیسا کہ ہم اپنے پہلے کالم میں یہ بات کہہ چکے ہیں پی ٹی آئی کے جو افراد پر تشدد واقعات میں ملوث ہیں ان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ یا آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے سے قبل حکومت کو قانونی پہلوئوں اور عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ بادی النظر میں موجودہ سیاسی صورت حال میں قوم انتخابات سے دور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ حالیہ سیاسی حالات میں پی ٹی آئی کے بہت سے ارکان اور عمران خان کے بعض قریبی رفقاء انہیں چھوڑ رہے ہیں۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو سانحہ نو مئی نے عوام پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ ملکی ادارے جو سرحدوں اور عوام کی حفاظت پر مامور ہیں اور آئے روز ملک و قوم کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، ان کے خلاف کسی سیاسی جماعت کی طرف سے پرتشدد کارروائیوں نے بہت سے پی ٹی آئی رہنمائوں اور عوام کو تحریک انصاف سے دور کر دیا ہے۔ ہمیں یاد ہے بھٹو کی پھانسی کے بعد الذوالفقار نامی تنظیم کی کارروائیوں نے پیپلز پارٹی کی ساکھ پر جو دھبہ لگایا تھا وہ بے نظیر بھٹو کی شہادت تک مٹ نہیں سکا تھا، لہذا ملک کے عوام اپنے اداروں کے خلاف کسی قسم کی پر تشدد کارروائی کی حمایت نہیں کر سکتے۔ عمران خان نے زمان پارک میں اپنی رہائش گاہ کی تلاشی کی آفر کرکے اچھا اقدام کیا ہے تاکہ ان کے مخالفین کو تنقید کا کوئی اور موقع نہ مل سکے۔ جہاں تک قانون اور انصاف کی بات ہے سپریم کورٹ سے اس ناچیز کو انصاف کا ملنا اور عمران خان کے خلاف بے شمار مقدمات اور حکومتی دبائو کے باوجود انصاف کی فراہمی سے یہ واضح ہے قانون کی دیوی کی ایک آنکھ ہے اور وہ کانوں سے بہری اور آنکھوں سے اندھی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button