ColumnImtiaz Ahmad Shad

دیوالیہ پن کی بازگشت

امتیاز احمد شاد

پاکستان میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام اس حد تک بدترین شکل اختیار کر چکا کہ اب وطن عزیز کے دیوالیہ ہونے کی بازگشت شدت سے سنائی دینے لگی ہے۔ کسی ملک کے دیوالیہ ہونے کے بارے میں ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ ایک ملک جب اپنے بیرونی قرضے کی قسطیں اور اس پر سود کی ادائیگی سے قاصر ہو تو اس ملک کو دیوالیہ قرار دیئے دیا جاتا ہے۔ تکنیکی طور پر ایک ملک اس وقت دیوالیہ قرار دیا جاتا ہے جب وہ بیرونی قرضوں کو ادا کرنے کے لئے بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہو جائے، اس کی ایک مثال لاطینی امریکی ملک ارجنٹائن کی ہے جو دس سال میں دو بار دیوالیہ ہو چکا۔ ایک ملک اس قرضے کی واپسی کے لئے عالمی مالیاتی اداروں اور دوسرے ممالک کے ساتھ معاہدہ کرتا ہے کہ قرضہ اور اس پر سود کی ادائیگی ایک خاص وقت اور مدت میں کی جائے گی تاہم جب کوئی ملک اس سلسلے میں قرضے کی قسط اور اس پر سود کی ادائیگی میں ناکام ہو جائے تو یہ ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے۔ مگر ایک ملک کے دیوالیہ ہونے سے پہلے جو علامات ظاہر ہوتی ہیں ان میں سب سے بڑی علامت کسی ملک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر اور ان کے مقابلے میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں فرق بہت زیادہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ جب ملک کے جاری کھاتوں ( کرنٹ اکائونٹ) کا خسارہ بہت زیادہ بڑھ جائے اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوں اور اس کے مقابلے میں بیرونی قرضے کی قسطیں اور ان پر سود کی ادائیگی ایک مسئلہ بن جائے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ دراصل جاری کھاتوں کا خسارہ اس لئے بڑھتا ہے کہ ملک میں درآمدات ( امپورٹ) زیادہ ہوتی ہیں اور اس کے مقابلے میں برآمدات ( ایکسپورٹ) اس رفتار سے نہیں بڑھ پاتیں کہ درآمدات پر بیرون ملک جانے والے ڈالر برآمدات کی صورت میں واپس آئیں اور اس کا دبائو زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑتا ہے کیونکہ وہاں سے درآمدات کے لئے ادائیگی کرنی پڑتی ہے، اس ادائیگی کی وجہ سے بیرونی قرضے کی قسط اور اس پر سود کی واپسی مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ بیرونی قرضے کی ادائیگی بھی ڈالر میں کرنی ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک کے پاس قرض ادائیگی کی سکت کم ہو رہی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اگر تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور درآمدات پر زیادہ ڈالر خرچ ہو رہے ہیں اور برآمدات کی صورت میں ڈالر کم آ رہے ہیں تو یہ بھی ملک کے ذخائر میں کمی لائیں گے۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ شروع ہوتا ہے جب کوئی ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہوتا ہے تو اس کی جانب سے بین الاقوامی مارکیٹ میں قرضے لینے کے لئے جاری کئے جانے والے بانڈز بھی زیادہ شرح سود پر لئے جاتے ہیں، یعنی ملک کو ان بانڈز میں انویسٹ کرنے والوں کو زیادہ منافع دینا پڑتا ہے اور بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے اس ملک کی ریٹنگ کم کر دی جاتی ہے۔ کسی ملک کے دیوالیہ ہونے سے عالمی منڈی میں ملک کی کریڈٹ ریٹنگ بہت گر جاتی ہے اور عالمی اداروں اور دوسرے ممالک کی جانب سے مزید قرض کی سہولت نہیں ملتی۔ یہ بات واضح ہے کہ ایک ایسا ملک جو قرضوں پر چلتا ہے اس کے لیے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضے کی سہولت بھی ضروری ہوتی ہے تاکہ اس ملک کی معیشت چل سکے۔ جب کوئی ملک دیوالیہ ہو جاتا ہے تو اس کے شدید نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ملک سے جانے والا تجارتی مال ضبط کر لیا جاتا ہے، ملک کے ہوائی جہاز اور بحری جہاز کسی دوسرے ملک میں ہوں تو قبضے میں لے لیے جاتے ہیں۔ دیوالیہ ہونے کی صورت میں کرنسی کی قدر روزانہ کی بنیادوں پر بہت تیزی سے گرنا شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ وینزویلا میں ہوا کہ جب یہ ملک دیوالیہ ہوا تو اس کی کرنسی اس قدر بے وقعت ہو گئی تھی کہ یہ سڑکوں پر بکھری رہتی تھی اور لوگ اس پر چلا کرتے تھے۔ ملک کے دیوالیہ ہونے پر عمومی طور پر حکومت مزید نوٹ چھاپ کر اندرونی قرضے ادا کر دیتی ہے، اصل مسئلہ بیرونی قرضوں اور ڈالرز کا ہے کیوں کہ وہ کمانے پڑتے ہیں، چھاپے نہیں جاسکتے۔ اگر کوئی ملک ڈالرز نہیں کما پا رہا اور وہ دیوالیہ بھی نہیں ہونا چاہتا تو پھر ضروری ہے کہ دوست ملک یا ادارہ ملکی خزانے میں ڈالرز جمع کروائے، جس سے وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کر سکے۔ دیوالیہ ہونے کے بعد عوام کی قوت خرید انتہائی کم ہو جاتی ہے۔ افراط زر 50فیصد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے، بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے، زندگی بچانے والی ادویات دستیاب نہیں ہوتیں، پٹرولیم مصنوعات درآمد نہیں ہو پاتیں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ معمول بن جاتی ہے، فیکٹریاں اور ہوٹل بند ہونے لگتے ہیں اور سرمایہ بیرون ملک منتقل ہونے لگتا ہے۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ دیوالیہ ہونے کے بعد سری لنکا میں صبح سے شام تک کی زندگی کسی جنگ سے کم نہیں، مہنگائی سو فیصد بڑھ چکی ہے، زندگی بچانے والی ادویات ناپید ہو چکی ہیں اور اگر کہیں مل بھی رہی ہیں تو ان کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ امیر طبقہ بھی خریدنے سے پہلے دس بار سوچتا ہے۔ بنیادی ادویات نہ ملنے کی وجہ سے متعدد لوگو ں کی موت واقع ہو چکی ہے۔ پٹرول ڈلوانے کے لیے 48گھنٹوں تک لائن میں کھڑے ہونا معمول بن گیا ہے۔ لوگ سونے کا سامان گاڑی میں رکھ کر لاتے ہیں اور لائن میں رہتے ہوئے نیند پوری کرتے ہیں۔ بچوں کی پوری نسل پروٹین سے بھرپور کھانا کھانے سے محروم ہو رہی ہے۔ دال بھی لگژری آئٹم بن چکی ہے۔ سری لنکن عوام کی اکثریت مخصوص سبزیاں اور پتے کھانے پر مجبور ہے۔ وہ چکن، فش اور گوشت خریدنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ بچوں کے دل، دماغ، پٹھوں اور ہڈیوں کو وہ نہیں مل رہا جس کی انہیں اشد ضرورت ہے کیونکہ دودھ کا پائوڈر درآمد ہوتا ہے اس لیے وہ بازاروں میں غائب ہے۔ ڈالرز نہ ہونے کی وجہ سے درآمد بہت مشکل ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے عمومی استعمال ہونے والی سبزیوں اور پھلوں کی قلت پیدا ہے۔ پاکستان میں بھی عوامی حالات سری لنکا جیسے ہونے کا خدشہ موجود ہے اور سیاسی عدم استحکام اس میں تیزی لانے کا سبب بن رہا ہے۔ گزشتہ دنوں سے ملک کے گلی کوچوں، سڑکوں اور چوکوں چوراہوں میں جو آگ لگی اور حکومت جس طرح سے آگ پر پٹرول چھڑک رہی ہے یہ انداز بتا رہا ہے کہ حک مرانوں کو بھی شاید ملک دیوالیہ کروانے کی بہت جلدی ہے۔ یاد رکھیں جس ملک میں ڈالر ختم ہو جائیں اسے دیوالیہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ چاہے ملک اعلان کرے یا نہ کرے۔ حکومتی اتحاد کی جارحانہ پریس کانفرنس، سپریم کورٹ کو کھلا چیلنج، واضح اشارہ ہے کہ ملک دیوالیہ ہو یا خدانخواستہ ٹوٹ جائے، انتشار پھیلے یا لاشوں کے ڈھیر لگیں کسی صورت مد مقابل فریق کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ آئی ایم ایف کو جو بڑھکیں مار رہے ہیں یہ یقینا ہارے ہوئے لشکر کے منہ سے نکلی جھاگ کے مترادف ہے۔ حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ پاکستانی عوام ملک کے دیوالیہ ہونے کو برداشت نہیں کر سکتے۔ مشکل فیصلے لے کر ملک کو بچانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button