Ahmad NaveedColumn

تیجا اور مونا ڈارلنگ

احمد نوید

پاکستان میں عام طور پر میڈیا اسٹڈیز کے لئے تعلیمی اداروں میں ہٹ فلموں کی کہانیاں اور پروڈکشن پڑھائے جانے کا رواج نہیں ہے۔ تاہم نیشنل کالج آف آرٹس کی یہ خوبی ہے کہ شعبہ فلم اینڈ ٹیلی وژن میں مشہور اور ہٹ فلموں کی کہانیاں اور پروڈکشن بہت تفصیل سے پڑھائی جاتی ہے۔
یہ 1972ء کی بات ہے۔ جب دھرمیندر نے سترہ ہزار روپے دے کر فلم زنجیر کی کہانی خریدی۔ فلم زنجیر کی کہانی سلیم جاوید کی لکھی ہوئی تھی۔ دھرمیندر یہ فلم فوری طور پر نہیں بنانا چاہتے تھے۔ تب پرکاش مہرا نے 55ہزار روپے دے کر فلم زنجیر کی کہانی دھرمیندر سے خرید لی۔
اس کہانی پر پرکاش مہرا نے دھرمیندر کے ساتھ فلم بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن دھرمیندر اپنی پسندیدہ کہانی میں کام نہ کر سکے اور فلم زنجیر امیتابھ بچن کے ساتھ بنی۔ فلم زنجیر غصے اور بغاوت سے بھرے ایک ایماندار نوجوان پولیس افسر وجے کی کہانی ہے اور یہ بات مشہور ہے کہ دلیپ کمار، راج کمار، دیو آنند سبھی نے اس کردار کو ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ 1973ء میں ریلیز ہونے والی یہ وہی فلم تھی جس نے ہندی فلم انڈسٹری کو ’ اینگری ینگ مین‘ دیا ۔ ایک نیا سپر سٹار جو آنے والے برسوں تک ہندی فلموں کا چہرہ بدلنے والا تھا۔ اس کے ساتھ پرکاش مہرا اور امیتابھ بچن کی جادوئی جوڑی کا آغاز ہوا تھا۔
فلم کے ابتدائی سین میں وجے کا کردار اس وقت سمجھ میں آتا ہے، جب سینئر افسر ( افتخار) انسپکٹر وجے سے کہتا ہے۔ آپ نے پولیس سروس میں پانچ سال مکمل کئے ہیں اور ان پانچ سال میں آپ کے 11تبادلے ہوئے ہیں۔ آپ ہر مجرم کو اپنا ذاتی دشمن سمجھنے لگتے ہیں ۔
فلم زنجیر میں سکرین پر ایک سپر ہیرو ہے یعنی امیتابھ بچن۔ لیکن دراصل زنجیر کی کامیابی کے پیچھے بہت سے ہیرو تھے۔ سنا ہے، فلم کی ریلیز سے قبل پران اور جیا بھادری لوگوں کے لیے فلم کی سب سے بڑی کشش تھے لیکن ایک ہفتے بعد امیتابھ بطور اداکار اور سٹار فلمی میگزین کے سرورق پر چھائے ہوئے تھے۔ اس فلم نے امیتابھ کو ایک سٹار بنا دیا تھا۔
زنجیر کا سکرین پلے سلیم جاوید نے لکھا ہے۔ فلم کی کامیابی میں پران ( شیر خان) اور اجیت ( تیجا) جیسے اداکاروں کے مضبوط کردار تھے۔ ڈائریکٹر پرکاش مہرا کی فلم زنجیر کو ہر بڑے ہیرو نے ٹھکرا دیا تھا۔ اس وقت راجیش کھنہ کا دور تھا۔ فلم میں رومانس ہونا لازمی تھا، کچھ کامیڈی اور ناچ گانا ، لیکن زنجیر میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ پرکاش مہرا نے فلم بنائی اور وہ بھی ایک ایسے اداکار کے ساتھ جو اس وقت تک دس، بارہ فلاپ فلمیں دے چکے تھے۔ جی ہاں امیتابھ کی یہ آخری فلم ثابت ہوتی، اگر فلاپ ہو جاتی۔ ایک فلاپ ہیرو کو لینا ایک بڑا خطرہ تھا اور وہ بھی جب پرکاش مہرا پہلی بار کسی فلم میں اپنا پیسہ لگا رہے تھے۔
یہ وہ وقت تھا، جب فلموں کے پوسٹرز پر کہانی کار کا نام نہیں دیا جاتا تھا۔ سلیم جاوید نے پرکاش مہرا سے کہا کہ ان کا نام بھی پوسٹر پر ہونا چاہئے۔ جاوید اختر کہتے ہیں، ’’ جب ہم نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ ایسا نہیں ہوتا‘‘۔ جب ’ زنجیر‘ بمبئی میں ریلیز ہوئی تو ہم نے دو جیپیں کرایہ پر لیں، ان میں4لوگوں کو بٹھایا، انہیں سیڑھیاں اور پینٹ دیا اور کہا کہ انہیں بمبئی میں جہاں کہیں بھی زنجیر کے پوسٹر نظر آئیں ان پر سلیم جاوید لکھ دیں۔ اس کے بعد فلموں کے پوسٹرز پر مصنف کا نام لکھا جانے لگا۔
سلیم جاوید نے رمیش سپی کو زنجیر دکھائی جس کے بعد سپی امیتابھ کو شعلے میں لے گئے اور امیتابھ ٹاک آف دی ٹائون بن گئے۔
سلیم جاوید نے ڈسٹری بیوٹرز کو فلم زنجیر بیچنے میں بھی مدد کی۔ دی اینگری ینگ مین ہندی سنیما کا سب سے پائیدار فارمولہ ہے جس نے ہٹ کے بعد ہٹ فلمیں دی ہیں اور سلیم جاوید کے اس فارمولے نے بہت سے لوگوں کو سٹار بنا دیا ہے ۔ فلم زنجیر میں پران اور امیتابھ بچن کے درمیان ابتدائی مناظر یادگار ہیں۔ جب پران کہتا ہے کہ جناب آپ اس علاقے میں نئے آئے ہیں، ورنہ شیر خان کو کون نہیں جانتا۔
دونوں کے درمیان یہ جھگڑا اور اس کے بعد گہری دوستی ہو جاتی ہے۔ گلشن باورا کو فلم کے گانے ’ یاری ہے ایمان میرا‘ کے لیے فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا۔ تیجا کے کردار میں اجیت نے ولن کو ایک نئی جہت دی۔ ایک بڑے بندوق والے ڈاکو یا لالچی ساہوکار کے برعکس، زنجیر میں، تیجا ( اجیت) سوٹ بوٹ والا ایک خوش اخلاق ولن تھا جو لوگوں کو بہت قریب سے سمجھتا تھا۔ جب سمگلر تیجا انسپکٹر وجے کھنہ ( امیتابھ) کو اپنی پارٹی میں الگ ہوتے دیکھتا ہے، تو مونا بندوا سے کہتی ہے، جو لوگ پارٹیوں میں الگ رہتے ہیں وہ عام طور پر بہت ضدی ہوتے ہیں۔
فلم میں کسی بھی کردار کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ باقی فلموں، لطیفوں اور آج کے سوشل میڈیا میمز میں زندہ رہتا ہے یا نہیں۔ تیجا اور مونا ڈارلنگ کے بہت سے میمز آپ کو آج بھی ملیں گے۔
زنجیر میں امیتابھ بچن اور جیا بھادری کا رومانس تھا اور ان کی شادی کی کہانی بھی فلم زنجیر سے جڑی ہوئی ہے۔ جیا بتاتی ہیں، ’’ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر ہماری فلم زنجیر ہٹ ہوئی تو ہم کہیں چھٹیاں منانے جائیں گے‘‘۔ تب تک ہم دونوں نے اکتوبر 1973ء میں شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جبکہ زنجیر کو اپریل میں ریلیز کیا گیا تھا۔ امیتابھ نے مجھے بتایا کہ میرے والدین نے کہا ہے کہ ہم شادی کئے بغیر چھٹیوں پر نہیں جا سکتے۔ تو ہم نے سوچا کہ اکتوبر کے بجائے جون میں شادی کر لیں۔
انڈین، پاکستانی، ہالی وڈ اور دوسری غیر ملکی زبانوں کی ہٹ اور اچھی فلموں کی کہانیاں اور پروڈکشن فلم کے طلبا کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ نیشنل کالج آف آرٹس یہ کارنامہ سرانجام دے رہا ہے۔ جہاں تک پاکستان کی سیاسی فلموں کا تعلق ہے۔ پاکستان کی سیاست میں بھی کوئی نہ کوئی اینگری ینگ مین ضرور رہا ہے۔
آج کل اینگری ینگ مین جو کبھی مونا ڈارلنگ ہوا کرتے تھے، تیجا کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔
کبھی کبھی افسانوی اور سیاسی فلموں کی کہانیاں کتنی ملتی جلتی ہوتی ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button